کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 175
ہے کہ ایک یا دودرہم میں ایک اور سط درجہ کی بکری مل جاتی تھی اور چالیس پچاس درہم میں ایک اوسط اونٹ۔ ایک درہم روزانہ سے ایک اوسط خاندان جو پانچ چھ افراد پر مشتمل ہوتا تھا ایک دن کا کھانا اوسط درجہ کا کھا سکتا تھا(148)۔ علوم وفنون سے وابستہ پیشے جاہلی عرب کی تمام تر جاہلیت وجہالت کے باوجود مکہ مکرمہ اور دوسرے مقامات پر علم وآگہی کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی تھی۔ ان میں بنیادی علوم یعنی لکھنا پڑھنا اہم ترین تھے اور مکہ مکرمہ میں ایک روایت کے مطابق نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے صرف سترہ افراد ان سے واقف تھے لیکن روایت صحیح نہیں ہے کہ ان کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ مکی اسلامی عہد کا کارنامہ ہے کہ ان پڑھنے والوں(قارئین) او رلکھنے والوں (کاتبین) کی تعداد ہر جگہ بڑھتی چلی گئی۔ کیونکہ ان کو قرآن کریم کی نازل شدہ آیات کریمہ، نبوی ارشادات واحادیث، اسلامی احکام اورخطوط وشاعری کے کارنامے پڑھنے اور لکھنے پڑتے تھے۔ شعروشاعری کرنے کاطبقہ اور خطابت کے فن کا ماہر عملہ (شعراء وخطباء) حفظ ویادداشت کے علاوہ لکھتا بھی تھا۔ حضرت ورقہ بن نوفل اسدی مکہ مکرمہ میں اور امیہ بن ابی الصلت ثقفی طائف میں، یہودی احبار مدینہ میں اور عیسائی رہبان نجران وغیرہ میں اپنے اپنے صحیفے، کتابیں اور قراطیس پڑھا اور لکھا کرتے تھے، ۔ یہ پڑھے لکھے لوگ اپنے اسفارشام وغیر ہ سے کتابیں بھی لاتے اور جمع کرتے تھے۔ قراءت وکتابت سے واقف افراد واکابر ان دونوں کی تعلیم وتربیت بھی دیتے تھے۔ اور ان کو عام طور سے”الکاتب“ کہا جاتا تھا۔ (149)۔ اس معزز پیشہ کا تعلق اصلاً علوم اسلامی کے ارتقا ء سے ہے جس کا ذکر بعد میں آتا ہے مگر کاتب ومعلم کے پیشوں کا مختصر ذکر اسی جگہ کیا جاتا ہے۔ مکی نبوی عہد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی خاص کتابت کے لیے اپنے متعدد صحابہ کرام کو مقرر کیا تھا۔ وہ کاتبین نبوی(کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم) کہلاتے