کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 174
چھلکے والے شعیرہ(جو یاحبہ) دانے کا وزن ہوتا ہے۔ ایرانی عہد میں درہم کے تین وزن ہوتے تھے:ایک بیس قیراط کا، دوسرا بار ہ قیراط کا اور تیسرا دس قیراط کا۔ وہ عربوں میں بھی رواج پاگئے۔ درہم چاندی کا سکہ ہوتاتھا او رعہد نبوی میں مختلف علاقوں میں اس کا وزن بھی مختلف ہوتا تھا۔ مکہ مکرمہ میں زیادہ ترردی یا فارسی درہم چلتے تھے۔ دینار سونے کا سکہ تھا اور وہ بھی مکہ مکرمہ وغیرہ میں زیادہ تر رومی ہوتے تھے۔ ان کے وزن مختلف تھے لہٰذا ایک دینار میں بارہ یا دس درہم ہوتے تھے۔ یہ شرح تبادلہ عہد نبوی میں برابر جاری رہا۔ چالیس دراہم کےبرابر ایک اوقیہ ہوتا تھا جو وزن تھا اور جس کا ذکر مہر کے بارے میں آتا ہے۔ ایک رطل میں بارہ اوقیہ ہوتے تھے۔ اسی طرح مثقال کا لفظ بھی آتا ہے جو بائیس قیراط کے برابر تھا، ۔ دراہم ودنانیر سکے بھی تھے اورچاندی سونے کے وزن کے پیمانے بھی۔ احادیث میں نش کا لفظ بھی آتا ہے جو نصف کے معنی میں ہوتا تھا۔ ان کا معیاری وزن بہت زیادہ مقرر نہ تھا۔ قرآن مجید میں درہم کا لفظ مکی سورہ یوسف :20 میں آیاہے یہ بتانے کے لیے کہ برادران یوسف علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کو چند درہموں کے عوض بیچ دیا تھا۔ سورہ آل عمران:75 میں دینار کا ذکر ہے اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ یہودی لوگوں میں بیشتر ایسے ہیں کہ ایک دینار کے بارے میں بھی امانتدار نہیں رہ سکتے۔ مفسرین کرام نے ان دونوں سورتوں کی آیات درہم ودینار کی تفسیر میں بعض مفید معلومات بہم پہنچائی ہیں جو نظام زر کو سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔ سیرت نبوی اور خاص مکی عہد نبوی کے واقعات واحوال میں اس تفصیل سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اجرت یا قیمت کےلحاظ سے ان دونوں معیاری سکوں یا درہم ودینار کی مالیت کیا تھی اور ان سے یا ان کے مختلف اجزاء سے کتنی اجرت ملتی تھی یا کتنی قیمت ٹھہرتی تھی۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکپن میں ایک بکری ایک قیراط کی اجرت پر چرائی تھی تو بیس یا اس سےزیادہ بکریاں چرانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک درہم کی مالیت مل جاتی تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا یا دوسری ازواج مطہرات کا مہر پانچ سودرہم یا ایک اوقیہ ونش تھا جو اپنی مالیت کے لحاظ سے ایک بڑی رقم اس زمانے میں تھی۔ درہم ودینار کی قوت خرید کا اندازہ ا سے ہوجاتا