کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 163
پارچہ بافی سوت کاتنا، دھاگے بننا اور پھر ان سے کپڑا بنانا غالباً سب سے بڑا حرفہ یا صنعت تھی۔ وہ خالصتاً دستکاری تھی۔ بعض مکی صحابہ کرام کپڑوں کی تجارت کے ساتھ ساتھ اپنے کارخانوں میں کپڑے بھی بنواتے تھے۔ مکہ مکرمہ کے علاوہ یثرب کے بعض خاندان تو اسی کام میں لگے ہوئے تھے۔ ان میں خزرج کے بنو النجار اور ان کے بعض ذیلی خاندان شامل تھے اور اپنے کپڑے سازی کی صنعت کے لیے خاصے مشہورتھے۔ وہ صنعت کار تاجر بھی تھے۔ مکہ، یثرب اور دوسرے مسلم علاقوں کی عورتیں خاص کر اپنی ضرورت کی چادریں، قمیصیں، ازاریں دوپٹے اور بستر کے فرش وفروش گھروں میں بنالیا کرتی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور ان کی ہمنام یثربی صحابیہ مکی دور سے صنعتکاری یا دستکاری کرتی اور اس کے ذریعہ مال کماتی رہی تھیں۔ ام المومنین حضرت زینب ام المساکین رضی اللہ عنہا بھی دستکارتھیں اور مدنی دور میں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے بعد دستکار نہیں بنی تھیں بلکہ پہلے سے تھیں۔ ضرورت بھر کا کپڑا بننا دراصل ہر خاندان کی گھریلو صنعت وحرفت تھی۔ پورے جزیرہ نمائے عرب میں کپڑے بننے کی صنعت پھیلی تھی اور اس کے متعدد خاص مراکز تھے۔ ان میں یمن سب سے بڑا اور اہم مرکز پارچہ بافی تھا، دوسرے علاقے تھے:صحار، سحول، نجران، جرش، قطر، خیبران مرکزی پارچہ بافی اور اس کے کپڑوں کا ذکر بالعموم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے ملبوسات اور بالخصوص اکابرقریش کے ملبوسات کے حوالے سے آتا ہے(128)۔ زرعی پیداواروں میں دودھ دہی اور پنیر وغیرہ دوسری گھریلو دستکاری تھیں۔ مویشی پالن سے وابستہ مرد وخواتین بالعموم دہی اور پنیر اور مکھن وگھی بناتے تھے۔ طائف کے علاقے سے حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اور ان کے خاندان والے مکی دور میں ملاقات نبوی کے لیے جب بھی آتے تھے تو گھی، مکھن اور پنیر ضرور لاتے تھے کہ وہ پسندیدہ چیزیں تھیں۔ یثرب کی صحابیات وصحابہ کرام بھی ان کو جاہلی دور اور مکی عہد سے