کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 161
زراعت مکہ مکرمہ کی آب وہوا اور ان سے زیادہ مٹی اور زمین کھیتی باڑی کے لیے مناسب نہ تھی۔ زمین پتھریلی اور ریگستانی تھی اور آب وہوا صرف گرم ہی نہیں بہت گرم۔ متعدد دوسرے علاقے اور خطے زراعت کے لیے بہت موزوں تھے۔ ان میں کھیتی باڑی، باغبانی اور دوسری زرعی پیداواریں ہوتی تھیں اور بیشتر لوگوں کی کفایت کرتی تھیں۔ ان میں طائف قریبی شہر وعلاقہ تھا جو بہت زرخیز تھا اور مکہ مکرمہ کو روز مرہ کی ضروریات جیسے سبزی، غلہ واناج، پھل پھلاری اور دوسری زرعی مصنوعات فراہم کرتا تھا۔ اس وسیع وزرخیز وادی میں ثقفی اکابر وشیوخ کے اموال اور زرعی جائیدادوں کا جال بچھا تھا(باغات اور زرعی جائیدادیں) اسی وجہ سے ان کو مالی خوشحالی حاصل تھی۔ مکی د ور نبوی میں طائف کے علاقہ وشہر میں اکا دکا مسلمان تھے۔ مگر قریش مکہ کے متعدد جاہلی اکابر کے اموال اس دیار میں تھے اور ان کے مسلم اخلاف ان کے وارث بنے۔ وارث یوں کہ وہ اپنے صاحب۔ مال والد کی وفات کے وقت صاحب ایمان نہ تھے اور بعد میں اسلام لائے۔ لہٰذا وہ اپنے حصہ اموال کے مالک پہلے بن چکے تھے۔ ان میں ابواحیحہ سعید بن عاص اموی کےفرزند حضرت ابان اموی وغیرہ، عبدالمطلب ہاشمی کے فرزند حضرت عباس ہاشمی وغیرہ اوربنومخزوم وغیرہ کے مسلمان شامل تھے۔ ان قریشی مالکانِ اموال کو طائف کے باغات اور کھیتوں سے متعدد پیداواریں جیسے غلہ، انگور، شہد اور کئی دوسری مصنوعات ملتی تھیں جو مکہ لائی جاتی تھیں۔ طائف وثقیف کے وسیع زرخیز علاقے میں بکھری ہوئی ان زرعی جائیدادوں پر ان کے قریشی مالک اپنے فرزندوں اور کارکنوں کے ساتھ جا کر طویل عرصے کے لیے قیام کرتے تھے۔ سخت گرمی کے موسم میں تو وہ ان صاحب مال لوگوں کی پسندیدہ پناہ گاہ تھی۔ فصلوں کے پکنے پر وہ خاص طور سے جاتے تھے اور یہ آمدورفت سال بھر مسلسل رہتی تھی(124)۔