کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 160
کے پیرو عربوں میں عام طور پر سود کی حرمت کا خیال وقانون تو رہا نہیں تھا لیکن یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں اس کی تحریم کا واضح ذکر موجود ہے اور وہ جانتے بھی تھے۔ قریش مکہ کے اکابر خاص بھی سود کو حرام ہی سمجھتے تھے لیکن اس میں مبتلا تھے اور مہاجنی سود بھی دیتے تھے اور تجارتی سود پر ان کی تجارت ہی قائم تھی۔ (121)۔
مسلم سودی کاروبار
عام سیرت نگاروں او رروایتی علماء کا خیال خام ہے کہ معاشی زندگی میں سود وربا ایسا لازمہ بن گیا تھا جس کے بغیر تجارت ومعیشت بگڑ جاتی یا ناممکن ہوجاتی لہٰذا اسے رفتہ رفتہ حرام کیاگیا :پہلے سود مرکب حرام ہوا، پھر تجارتی سود ومہاجنی سود حرام ہوا اور تیسرے مرحلے میں جو مدنی عہد میں آیا سود کی قطعی حرمت آگئی۔ یہ خیال بعض محققین کا بھی ہے۔ (221)۔ لیکن وہ بالکل صحیح نہیں ہے اورروایات پر اورآیات کریمہ کی غلط تفسیر پر مبنی ہے۔ اسلامی دین وشریعت میں سود وربا ہمیشہ حرام رہا اور کسی نبی کی شریعت میں کبھی حلال نہیں رہا۔ مکی عہد محمدی میں بھی وہ حرام ہی رہا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے احکام حلال وحرام میں شروع سے اسے حرام قراردیا اور کسی صحابی یا مسلم کو سودی کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جیسے ہی کوئی شخص یا طبقہ ایمان قبول کرتا اور اسلام لاتا اس کو دوسری حرام چیزوں سے اجتناب کرنے کے ساتھ سود اور ربا کی قطعی ممانعت فرمادیتے۔ حضرت عثمان بن عفان اموی ہوں یا حضرت عباس بن عبدالمطلب ہاشمی، تمام صحابہ کرام نے اسلام قبول کرتے ہی سودی کاروبار یک لخت اور قطعی چھوڑدیا تھا۔ لہٰذا مکی دین وشریعت میں سودی کاروبار مسلم صحابہ کرام یا دوسرے مسلمانوں نے کبھی نہیں کیا۔ احکام تحریم کا علم ہوتے ہی وہ اسے ترک کردیتے تھے۔ اس موضوع پر ایک تحقیقی بحث کہیں اور کی جاچکی ہے اور ثابت کیا جاچکا ہے کہ مکی اسلامی تجارت اور اسلامی مکی معیشت سودی کاروبار سے قطعی پاک تھی۔ (123)۔