کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 16
تاریخ ہیں۔ اور آپ تاریخ اور اس کی چاشنی کونہیں پاسکتے جب تک ان اسباب تک آپ کی نظر نہیں جاتی۔ میں ڈاکٹر محمد یٰسین مظہر صدیقی صاحب کا بڑا شکر گزار ہوں کہ د س خطبوں کےلیے آپ تشریف لائے۔ اس سے انکار نہیں ہے کہ اسلامی تاریخ کا درخشاں باب فتح مکہ اور ہجرت کے بعد شروع ہوتاہے۔ اس لیے توزیادہ زورمورخین ”ابن اسحاق، ا بن ہشام، واقدی، ا بن سعد یا بعدکے مورخین “نے مدنی زندگی پر زور دیا۔ ہمارے زمانے کےلوگ ہوں یا بیسویں صدی کے، ان سب کا زیادہ زور مدنی زندگی پر رہا، مکی زندگی کی بے شمار تفصیلات جوہیں وہ نظروں سے اوجھل رہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں نہیں آئیں، انساب کی کتابوں میں، رجال کی کتابوں میں، ادب کی کتابوں میں حتیٰ کہ جنہوں نے بہت سارے نغمے اکھٹے کیے صبح الاعشقی قلشقندی کی بھی بہت ساری تفصیلات ملتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ جب ہم اس کو زمانہ جاہلیت کہتےہیں، ایسانہیں ہے کہ وہ زمانہ سوفیصد اچھی باتوں سے عاری تھا۔ جاہلیت تواس لیے کہتے ہیں کہ سب سے بڑی جہالت یعنی شرک کا ان سے ارتکاب ہواتھا، البید بن ربیعہ ( الشاب القتیل ) ایک شاعر جوکہ ۲۶سال کی عمر میں مرا اور صاحب معلقہ ہے۔ وہ کہتاہے کہ تین ہی میرے آئیڈیلز ہیں۔ ان میں سے ایک وہ یہ بیان کرتاہے کہ کوئی مجھے مدد کےلیے پکارے اور میں ااڑ کے اس کی مددکےلیے پہنچوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانےکےفلا ں شخص ”ھو نار علی الجبل“( وہ تو پہاڑ کی چوٹی پہ ایک الاؤ ہے آگ کا )۔ جس طرح رات کو پہاڑ کی چوٹی پہ جلتی ہوئی آگ دنیا کو نظر آتی ہے اس طرح وہ ایک عظیم آدمی ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت خنسہ نے فرمایا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے زمانہ میں بھی بے شمار عربوں کی یہ عادت تھی کہ جوکوئی اونچی جگہ پہ رہتا تھا۔ تو وہ وہاں آگ کا الاؤ روشن کردیتا کہ رات کو بھولا بھٹکا کوئی مسافر ہو