کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 159
وہ ضابطہ وغیرہ کہلاتے تھے۔ ان غیر ملکی تاجروں کا ذکر اور مکی تاجروں کے بین الاقوامی تعلقات کا بیان مختلف مواقع پر ملتا ہے۔ حضرت عمر وبن العاص سہمی رضی اللہ عنہ اسلام سے قبل مکی دور میں بطور کافر تاجر اور سفیرقریش اپنے رفیقوں اور ندیموں کے ساتھ حبشہ جاتے رہے تھے اور ان کے قافلے اور کاروانوں میں اور خاص مسلم کاروانوں میں کلی صحابہ کرام کے تاجران ذی شان بھی حبشہ جاتے اور وہاں اپنا مال فروخت کرتے اور حبشی سامان تجارت عرب ضروریات کے مطابق مکہ اور دوسرے علاقوں کے لیے لاتے تھے۔ حبشمی تاجروں کا خاصا بڑا طبقہ مکہ میں بھی موجود تھا۔ (120)۔ سودی کاروبار تجارتی زندگی اور اقتصادی دولتمندی کا ایک ہنر یہ بھی ہے اور آفاقی بھی کہ مال ونقد ہی سامان تجارت اور ذریعہ آمدنی بن جاتاہے۔ قریشِ مکہ، ثقیف ِ طائف، یہود ِ مدینہ، نصاریٰ نجران اور قریب قریب تمام شہروں اورتجارتی مرکزوں اور اقتصادی علاقوں کے مالدار لوگ سودی کاروبار کرتے تھے۔ وہ نقد یامال کو ایک خاص مدت کے لیے عام طور سے پچاس فیصد اور بسااوقات سوفیصد شرح سود پر ضرورت مند عوام اور خواص کو دیا کرتے تھے۔ متعین عرصہ میں وہ نقد یا جنس نہ لوٹائی جاتی اور سودنہ اداکیا جاتا تو سودا صل میں شامل ہوجاتا اور اب اس اضافہ شدہ اصل پر سود کی شرح لگتی۔ اسے سود مرکب تو کہا جاتا ہے مگر وہ اصلاً ربوٰ کی سب سے ظالمانہ شرح وکاروبار حیوانی ہے۔ قریشی اکابر میں عبدالمطلب ہاشمی اور ان کے فرزند عباس بن عبدالمطلب ہاشمی اور ولید بن مغیرہ مخزومی اور ان کے خاندان(بنوالمغیرہ) کے نام سودی کاروبار کرنے والوں میں آتے ہیں لیکن ان میں بنو مخزوم وبنو امیہ بنوعبد شمس اور دوسرے تمام مالداران قریش شامل تھے اور ثقیف وطائف کا تو بیشتر کاروبار سودی لین دین پرمبنی تھا۔ وہ مہاجنی سود بھی تھا اور تجارتی سود بھی۔ یہاں تک کہ نجران وغیرہ کےعیسائی اور مدینہ وغیرہ کے یہودی سودی کاروبار کرتے تھے اورخوب ظلم سے مال کماتے تھے۔ دین حنیفی