کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 156
تجارت مکہ کےجغرافیائی احوال اور بیت اللہ کےوہاں وجود کی وجہ سے قریش مکہ کو تجارت وکاروبار دوکانداری اور خریدوفروخت کے مشغلہ کو زیادہ اپنانا پڑا۔ قریش کی سہولت اورجمع خاطر کے لیے اللہ تعالیٰ نے گرمی اور سردی کے دوبین الاقوامی تجارتی سفر یا تجارتی شاہراہیں بنادی تھیں تاکہ بھوک سے محفوظ رہیں اورامن وامان سے زندگی گزاریں(117)۔ قریش کی اس بنیادی معیشت وکاروبارکی بناپر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام نے بھی جاہلی دور میں بھی اوراس کےبعد اسلامی عہد میں بھی تجارت وکاروبار کوہی اپنی معاشی زندگی کی اصل بنایا۔ وہ مقامی وشہری تجارت وکاروبار میں بھی حصہ لیتے تھے، ملکی سطح پر عرب بازاروں(اسواق العرب) میں بھی تجارت کےجاتے رہتے تھے اورغیر ملکی تجارت اور بین الاقوامی کاروبار میں حصہ لینے کی خاطر شام ویمن اور ان کے متصل علاقوں میں جاتے تھے۔ شامی تجارت ان کی اقتصادی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی تھی اورقریشی تاجر اور صحابہ کرام مقامی کاروبار اور ملکی تجارت میں حصہ لینے کے لیے شامی تجارت سے وابستہ ہوجاتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شامی تجارت کے لیے دو سے زیادہ سفرکیے تھے، یمن اور دوسرے اسواق العرب میں بھی گئے تھے۔ بعثت سے قبل بھی تجارت کی تھی اور بعثت ونبوت کے بعد بھی جاری رکھی تھی۔ بس طریقہ کارکا ایک فرق آیا تھا۔ ابتداء میں مختلف تاجروں کا سامان تجارت لے کرجاتے اور اپنی محنت سے کاروبار بڑھاتے اور صاحب مال کے مال پر منافع کا اضافہ کرتے اور واپسی پر صاحب مال کا اصل اسے لوٹا دیتے اور منافع میں شریک ہوجاتے۔ فقہاء اسلامی اور ماہرین معیشت نے اسے مضاربت، مقارضہ، قراض وغیرہ کا نام دیا ہے جو محنت وسرمایہ کے اشتراک پر مبنی تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود صاحب مال بن گئےتھے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجارت زوجین(میاں بیوی) کی مشترکہ تجارت بن گئی تھی۔ اس کا قوی امکان ہے