کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 143
قریب کےداماد اور اس کی اولاد کی ہرطرح امداد کرنا اور ان سے محبت وتعلق رکھنا ان کا فرض بن جاتاتھا۔ اخوال(ننہالی عزیزوں) سے ددھیال والوں کو بھی خاص محبت بھرا تعلق ہوتاتھا۔ عربوں میں بہن کی اولاد(ابن الاخت) کو وہ اپنے خاندان، ننہال، ہی کافرد سمجھتے تھے اور ان کےساتھ خاص عزیز انہ تعلقات رکھتے تھے۔ قصی بن کلاب، ہاشم بن عبدمناف، عبدالمطلب بن ہاشم اور عبداللہ بن عبدالمطلب وغیرہ کے علاوہ متعدد دوسرے اکابر قریش کے ایسے ہی مخلصانہ ومحبت بھرے تعلقات اپنی اپنی ننہالوں سے تھے۔ عربوں میں تعدد ازواج(Polygamy) یعنی ایک سے زیادہ دوچار اور بسااوقات دس بیس بیویاں مختلف خاندانوں اور قبیلوں سے لانا قبائلی اتحاد واخوت کا ایک سبب تھا۔ بہت کم لوگ ایسے تھے جنہوں نے صرف ایک بیوی پر قناعت کی جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی زندگی بھر دوسری بیوی نہیں کی۔ ان کی وفات کے بعد مکہ مکرمہ ہی میں دوبیویاں یکے بعددیگرے کاشانہ نبوت میں آئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اکثر کی بیویاں دو یا ان سے زیادہ ہی ہوتی تھیں۔ نکاح نکاح کی بنیادی رسم یہ تھی کہ لڑکے والے لڑکی والوں سے نسبت طے کرتے تھے۔ عام طور سے بچپن ہی سے لڑکی مانگ لی جاتی تھی۔ ایسی لڑکی کو بالعموم مسماۃ/المسماۃ(نامزد خاتون) کہا جاتاتھا جیسا کہ حدیث وسیرت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں آتا ہے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے لیے بھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین دختروں، زینب، رقیہ، ام کلثوم کی نسبتیں ان کے خالہ زاد اور چچا زاد برادروں سے بچپن ہی میں طے کر دی گئی تھیں اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت بنو نوفل کے شیخ مطعم بن عدی کےفرزند جبیر بن معطم سے طے کردی گئی تھی۔ نسبت پر دوسری نسبت دینا اور قبول کرنا براسمجھا جاتا تھا۔ اور اسی طرح نسبت توڑنا بھی معیوب تھا۔ نسبت یا منگنی کی ایک مختصر اور سادہ تقریب ہوتی تھی جس میں چند عزیز ودوست شریک ہوتے تھے۔