کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 135
(8) کچی عمر کی دولہن کی رخصتی کچھ عرصہ بعد ہوتی تھی۔ جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی تین سال کے لیے روک دی گئی۔ (9) دولہاکےرخصتی کے بعد اپنے گھرپر ولیمہ کرتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام نکاحوں اور شادیوں پر ولیمہ کیا تھا۔ (10) مہر مقرر کیا جاتا تھا اور فوراً ادا بھی کیا جاتا تھا۔ ازواج مطہرات خاص کر مکی ازواج کے مہروں کی رقم کی تعین اور ادائی دونوں کی روایات ملتی ہیں۔ (11) ایسی بعض اور صالح اور خوبصورت رسوم تھیں۔ ان میں خوشی منانا، شادیانے بجانا، بچوں عورتوں کا گانا گانا، مکان سجانا وغیرہ شامل تھے(102) مکی اسلامی شریعت کا ایک خاص پہلو یہ بھی تھا کہ عرب جاہلی کے نکاحوں اور شادیوں کو قانونی اور جائز تسلیم کیا تھا۔ ان نکاحوں سے پیدا ہونے والی اولاد کو بھی جائز قراردیا تھا۔ اس طرح قدیم عرب جاہلی نے روایات واحکام نکاح و نسب کو تسلیم کر کے ان کو اسلامی بنا دیا۔ خون وازدواج کے رشتوں کی طرح رضاعت کے قدیم عرب طریقے اور ان کے احکام و معاملات کو اسی طرح حلال و جائز اور رائج قراردیا تھا۔ محرمات (ماں، بہن، بیٹی، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی، رضاعی ماں اور بہن، ساس، بہو وغیرہ) سے نکاح کرنا اور ان کے تقدس کا احترام کرنا دین حنیفی سے چلا آرہا تھا۔ مکی اسلامی شریعت میں بھی یہ قانون و حکم بھی برقراررہا، سوتیلی ماں سے نکاح (نکاح المقت) عربوں میں بھی حرام تھا۔ وہ مکی شریعت میں بھی اسی طرح حرام رہا(103) اسلام و دین کے سبب قریشی خاندانوں خاص کرمیاں بیوی میں بھی دینی اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ شوہر مسلمان تھا تو بیوی کافرو مشرک تھی اور بیوی مسلمہ تھی تو شوہر اپنے قدیم دین پر قائم تھا۔ یہ ایک نئی دینی و قانونی مشکل اور سماجی، اخلاقی اور تہذیبی وقت تھی اس کے دور اس اثرات تھے۔ مکی اسلامی شریعت میں ایسے تمام نکاحوں اور شادیوں کو برقراررکھا گیا اور مسلمان شوہر سے اس کی کافر بیوی اور مسلم بیوی سے اس کا