کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 134
طلاق کے متعدد احکام تھے، ان میں سے بعض پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمل بھی کیا تھا۔ نکاح و طلاق کے ضمن میں ان کی سنتوں اور نوافل کا بھی ایک تصور تھا اور عمل بھی۔ نکاح کے متعدد احکام مکی دور میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاحِ نبوی کےضمن میں ملتے ہیں اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے حوالہ سے بھی۔ امام بخاری کی صحیح کے ابواب النکاح واطلاق اور ان کی شرح وتفسیر میں حافظ ابن حجر عسقلانی کے مباحث بہت قیمتی اورمعلوماتی ہیں۔ سنت ِ نبوی اور طریق ِ صحابہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح وشادی کے چند متفقہ ومسلمہ آداب وروایات تھے: 1۔ نسبت لڑکے لڑکی دونوں کی طے کی جاتی تھی۔ عام طور سے نسبت لڑکے کی طرف سے اس کے ولی دیتے تھے جسے لڑکی والے قبول کرتے یا مسترد کرتے۔ 2۔ پیغام پر پیغام دینا اخلاق کے خلاف تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی نسبت حضرت جبیر بن عدی نوفلی سے طے ہوتی تھی اور اس پر نکاح نبوی کا پیغام دوکاگیا۔ 3۔ نکاح کے لیے بارات دولہا والے دولہن کے گھر لے جاتے تھے۔ اس میں اعزہ اقارب کے علاوہ احباب وبزرگ خاندان شامل ہوتے تھے۔ 4۔ خانہ دولہن میں نکاح ہوتا اور خطبہ پڑھا جاتا تھا۔ جیسے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے نکاح نبوی میں ذکر ملتا ہے۔ 5۔ نکاح کی دعوت دولہن والوں کی طرف سے ہوتی تھی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ولی نے دعوت دی تھی۔ 6۔ دولہن مناسب عمر کی ہوتی توشب زفاف سسرال میں منائی جاتی تھی اور دولہا تین دن وہاں قیام کرتا تھا۔ 7۔ شب زفاف کے بعد دولہا دلہن کواپنے گھر رخصت کرالیتا تھا۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا رخصت ہوکر کاشانہ نبوی میں آگئی تھیں۔