کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 132
مشرکین عرب اورمسلمانان عرب دونوں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ دوسرے بدوی قبیلوں کے علاوہ یثرب کے متعدد اکابر اور ان کے بڑے بڑے وفدوں نے حج اور عمرہ اور طواف وزیارت کے ارکان پر مکی عہد میں عمل کیا تھا۔ اس باب میں عمرہ، طواف، زیارت اورحج کے بہت سے احکام سنن اور نوافل وآداب کا بھی ذکر ملتا ہے۔ وہ بھی مکی عہد کا ارتقا ہے۔ مکی عہد نبوی میں اسلامی احکام کا ارتقاء باب عمروحج بہت سی احادیث وروایات اور تاریخی شہادتیں رکھتا ہے۔ (98)۔ حلال وحرام کےاحکام دین حنیفی میں حلال وحرام کے احکام وقوانین بھی تھے اور ان پر نیک لوگوں کا عمل بھی تھا اور بُرے لوگوں میں بھی وہ حلال وحرام ہی سمجھے جاتے تھے وخواہ وہ ان میں سے بعض میں خود ملوث ہوگئے ہوں۔ انہوں نے البتہ اپنی ذاتی انا، قبائلی فخر، مردانہ وجاہت اور ایسی ہی دوسری ذہنی وفکری کجروی کے باعث بعض حلال چیزوں کو حرام اور بعض حرام چیزوں کو حلال کرلیا تھا۔ ان میں مردار گوشت، خون، کیڑوں مکوڑوں اور بعض دوسرے حرام کھانوں کا کھانا اور کئی حرام چیزوں کا کرنا شامل تھا۔ مکی اسلامی شریعت میں حلال وحرام کا تصور، ان دونوں کا فرق او ر ان دونوں کے احکام اورآداب پہلے دن سے کچھ حدیث وسنت کے ذریعہ اورکچھ قرآن کے ذریعہ لیے گئے تھے۔ دربار نجاشی میں حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی تقریر میں یہ وضاحت ملتی ہے کہ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کو حرام کہا ہم نے انہیں حرام سمجھا اور جن کو حلال قراردیا ان کو حلال سمجھ کربرتا۔ حرام چیزوں میں انہوں نے شرک، بت پرستی کے علاوہ متعدد کھانوں کا ذکر کیا تھا۔ اسی طرح قطع رحمی، قتل وغیرہ کو بھی حرام بتایا تھا۔ قرآن مجید کی مکی سورتوں خاص کر سورہ انعام وسورہ بنو اسرائیل(اسراء) میں حرام و حلال چیزوں کا واضح ذکر موجود ہے۔ ان میں کھانے پینے کی چیزوں کےعلاوہ اور بھی کئی معاشی اور سماجی کام شامل تھے جیسے امانت کاادا کرنا، وعدہ وفا کرنا، صلہ رحمی کرنا،