کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 131
ساتھ حج وعمرے اورطواف کرتے تھے۔ اسلامی محمدی شریعت میں حج روز اول سے مکی دور میں فرض رہاتھا۔ اور اس کے ارکان وآداب، احکام ومسائل پر عمل بھی رہا۔ اس کی بعد کی فرضیت کی روایت صحیح نہیں جیسا کہ عام علماء اورسیرت نگار بیان کرتے ہیں۔ فرضیت حج کبھی منسوخ نہیں ہوئی اور نہ وہ نئےسرے سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی گئی تھی۔ مکی دور نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد حج کیے تھے اور حدیث کے بعض محققین کے مطابق تین حج تو قطعی ہیں او رسیرت نگاروں کی تحقیق کے مطابق ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ عمرہ اور طواف بھی اسی طرح دین حنیفی سے اسلامی مکی احکام میں آئے تھے اور وہ اسلامی شریعت کا حصہ بنے تھے۔ ان کے احکام وآداب بھی اسی طرح اسلامی مکی شریعت میں داخل ہوئے کیونکہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سکھائی ہوئی روایات اور ان کے تعلیم کردہ آداب واحکام تھے اور سب صالح تھے۔ جن غیر صالح چیزوں کو قریش مکہ نے اپنے مذہبی انحراف اور قبائلی تفاخر کی وجہ سے حج وعمرہ اور طواف میں داخل کرلیا تھا ان کی اصلاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کردی تھی۔ ننگے ہوکر طواف کرنے کی غیر اسلامی روایت تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لڑکپن میں توڑی گئی اور امام بخاری نے اس سے استدلال کیا ہے۔ عریاں طواف کا معاملہ عام ابتلاء وعمومی ارتکاب کا نہ تھا، چند استثنائی حالات میں عریاں کیا جاتاتھا۔ قریش نے طریقہ حمس کے مطابق خارجی عربوں پر یہ ننگ عائد کیا تھا۔ حج میں قریش مکہ کا عرفات نہ جانا اورمزدلفہ سے لوٹ آنا بھی قریشی انحراف تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کا وقوف کیا اورقریشی انحراف کی اصلاح کی۔ اس طرح عمرہ میں سعی صفا ومروہ کو اور حج کے بعد گھروں میں دروازے سے داخل ہونے کی صحیح اسلامی تعلیم دی۔ محققین سیرت وحدیث نے ان کا ذکر اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ تلبیہ یوں تو صحیح ابراہیمی تھا مگر مشرکوں نے اس میں کچھ مشرکانہ الفاظ بڑھادئیے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بھی صحیح تعلیم دی اور مشرکانہ الفاظ نکال دئیے۔ احرام ومیقات کے احکام دین حنیفی سے عربوں میں آئے تھے اور جو صحیح تھے ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا۔ مکی دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سالانہ تبلیغی دوروں میں ہربارحج کیاتھا اور