کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 130
وسنت۔ مکی دور میں” اصل زکوٰۃ“موجود تھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا رکن وحکم تھا اور اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل بھی۔ قریشی عوام وخواص بھی اس پر عمل کرتے تھے۔ لیکن اس دور میں زکوٰۃ کانصاب اور اس کےدوسرے احکام جن کو ”مقادیر“کہا جاتا ہے نہیں دیے گئے تھے۔ مالدار قریشی اور صاحب مال مسلمان صحابہ اپنے مال سے جو چاہتے، جتنا چاہتے یا جس قدر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طلب فرماتے، زکوٰۃ ادا کردیتے تھے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ صاحبان ِ خیر نے اپنا پورا مال غریبوں کو دے دیا۔ تحنث وتبرر(حنیفیت اورنیکی اجروثواب) کی ایک روایت یہ بھی تھی کہ وہ غریبوں مسکینوں کو کھاناکھلاتے، ان کو کپڑے اور دوسری ضروریات کا سامان دیتے، بلاسواری شخص کو سواری فراہم کرتے، قرض دار کا قرض ادا کرتے اور غلام آزاد کرتے۔ مختلف قسم کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے پر بھی ان کا عمل تھا۔ نذر پوری کرنے کا طریقہ وفرض بھی رائج تھا اور اس کو توڑنے پر اس کی قضا یا اس کا کفارہ ادا کرنے کا بھی عمل تھا۔ امام ابن کثیر نےتفسیر القرآن میں شاطی نے مواخقات میں اورشاہ ولی اللہ نے حجۃ البالغہ کی فصل میں اصل الزکوٰۃ سے بحث کی ہے۔ کتاب خاکسار”اسلامی احکام کے ارتقا کا باب اور حنیفیت پر مقالات میں مفصل مباحث موجود ہیں۔ (97)
حج وعمرہ وطواف
اذانِ ابراہیمی کے بعد سے مکہ مکرمہ میں واقع خانہ کعبہ کا سالانہ حج برابر جاری رہا۔ قریش مکہ اور دوسرے عرب برابر حج کیا کرتے تھے۔ اسے فرض سمجھتے تھے۔ وہ سال کے مختلف زمانوں میں اور حج کے مہینوں میں بھی عمرے کرتے تھے اور طواف بیت اللہ تو ان کی روزانہ محبوب ترین عبادت تھی۔ دین حنیفی کے اس عظیم الشان شعار اور مقبول رکن کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے بھی ادا فرمایا اور اسلامی مکی شریعت کےنفاذ کے بعد بھی اس پر عمل کیا۔ قریشی مکی صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ ساتھ دوسرے بدوی قبیلوں کے مسلمان صحابہ بھی اپنے غیر مسلم رشتہ داروں اور ہم وطنوں کے