کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 129
دین حنیفی کا ورثہ او رحضرت ابراہیم علیہ السلام کا عطیہ تھا اور جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے رسولوں کا بھی عمل تھا۔ مکی دور میں یہ روزے، جن کی کل تعداد 37 تھی سال بھر میں فرض تھے۔ باقی نفل روزوں کی تعداد مقرر نہ تھی۔ روزوں کا ذکر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی دربارِ نجاشی کی تقریر میں بھی ملتا ہے۔ عاشوراء کے فرضی روزے اورمکی دور سے پہلے قریش اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکھنے کا ذکر احادیث ِ بخاری وغیرہ میں بھی ہے۔ حدیث بخاری:2002 کے مطابق رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور میں عاشوراء کے روزے نہ صرف رکھے بلکہ ان کے رکھنے کا حکم بھی مسلمانوں کو دیا جس پر عمل کیا گیا۔ قرآن مجید، سورہ بقرہ کریمہ، میں سابق امتوں پر روزوں کی فرضیت کاذکر ہے اور متعدد انبیاء کرام کے قصص وتعلیمات میں بھی ہے۔ جیسے حضرت یحییٰ، زکریا اور عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ کے بارے میں سورہ مریم کی آیات میں ملتا ہے۔ اسلامی احکام کے باب صیام میں بہت تفصیل ہے(95)۔
روزوں سے متعلق احکام وسنن
خلوت گاہوں میں جوارواعتکاف اور مسجد حرام میں جوارواعتکاف کرنے کی دین حنیفی کی روایت پر عمل تھا۔ رمضان میں قرآن کریم کی، جتنا بھی نازل ہوتا، تلاوت کی جاتی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ ہر رمضان میں پورے نازل شدہ قرآن کریم کا مذاکرہ بھی کرتے تھے۔ عام تلاوت کا بھی روزوں سے خاص تعلق تھا۔ کتب سیرت میں تلاوت نبوی اور تلاوت صحابہ کا عمل اورآیات قرآنی میں قراءت وتلاوت قرآن کاحکم ملتا ہے۔ (96)۔
صدقات وزکوٰۃ
دین حنیفی اورتمام دوسرے رسولوں کے دین اسلام میں صدقات وزکوٰۃ کا ذکر ملتا ہے۔ ان کا اور ان کی امتوں کا ان پر عمل بھی تھا۔ زکوٰۃ فرض تھی اور صدقات نفل