کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 127
اور اس سے قبل خطبہ شرو ع کیا، اس وقت تک دو رکعات ہی ظہر میں تھیں۔ نماز جمعہ قراءت قرآن جہری(بلند آواز) سے شرو ع ہوئی جو تمام جامع نمازوں کی اساس بھی بنی۔ بحرین کے عبدالقیس کی مسجد جواثی میں بھی اسی طرح نماز جمعہ قائم کی گئی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے نماز جمعہ کے لیے کافی مسلم آبادی اور امن ضروری شرطیں تھیں۔ مکہ مکرمہ میں قریش کی مخالفت کے سبب وہ شرطیں نہیں پوری ہوتی تھیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مکی صحابہ نے مکی دور میں نماز جمعہ نہیں اداکی۔ (92)۔ تعمیر مساجد: مکہ مکرمہ مکی دورِرسالت میں سب سے بڑی مسجد تو مسجد حرام تھی جو خانہ کعبہ کے اردگرد ہر سمت میں دائرے کی شکل میں پھیلی ہوئی تھی۔ وہ قریش مکہ، عرب قبائل اور صحابہ کرام کی مشترکہ مسجد تھی، اسے بلاشبہ قومی مسجدِ جامع کہا جاسکتا ہے اور بین الاقوامی سجدہ گاہ بھی۔ قریش مکہ چاشت کی نماز دین حنیفی کی روایت میں ادا کرتے تھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام بھی اسے بعثت کے اول دن سے ادا کرتے آرہے تھے۔ اسلامی شریعت کے مطابق اولین نماز ادا کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مکہ مکرمہ کی وادیوں اور گھاٹیوں کارخ کرتے تھے اور وہ بلاتعمیر مساجد تھیں۔ قریش کےدورِ مظالم میں مسلمان صحابہ میں سے متعدد نے اپنے اپنے گھروں کے احاطے(دار)میں مسجدیں بنالی تھیں جہاں وہ دن رات کی نمازیں پڑھتے تھے۔ ان میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ وغیرہ کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد بیت بہت اہم تھی۔ دارارقم کا مرکز بھی ایک جامع مسجد تھی۔ مختلف اسفارِ تبلیغ وتجارت کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مقامات پر نمازیں پڑھی تھیں ان سب کو مساجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دیا گیا ہے۔ جیسے حضرت ام ہانی بنت ابی طالب ہاشمی کے گھر کےقریب ایک مسجد تھی، سفرِ طائف سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مقامات پر نمازیں ادا کی تھیں۔ اوران مقامات کو مساجد کا نام ومقام دیا گیا اور بعد کے زمانے میں وہاں مسجدیں تعمیر کردی گئیں۔ (93)۔