کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 126
بہرحال نمازوں میں فرض، سنت اور نفل کا فرق بھی تھا اور ان کے احکام بھی تھے۔ اسی طرح اول روز سے نماز کا قبلہ مقرر کردیا گیاتھا۔ عربوں اور دین حنیفی کا قبلہ خانہ کعبہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے خاص مصلحت سے مکی دور میں نماز کا قبلہ بیت المقدس کے رخ کردیا۔ مصلحت یہ تھی کہ عربوں اور ایمان والوں کا امتحان لیا جائے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں یا نہیں۔ دوسرے وہ یہود ونصاریٰ کا بھی قبلہ تھا اور اولین قبلہ ابراہیمی بھی تھا۔ (90)۔
سجدہ تلاوت
دین حنیفی کے مشترکہ ورثہ پر عمل کے سبب کفار قریش کےاکابر نے سورہ النجم کی آخری آیت کریمہ کی تلاوت پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کیاتھا۔ آیات سجدہ کا حکم بھی مکی ہے۔ مکی سورتوں میں آیات سجدہ زیادہ ہیں بمقابلہ مدنی سورتوں کے وہ مکی سورتیں ہیں:اعراف، نحل، اسراء، مریم، فرقان، نمل، سجدہ، ص، حم السجدہ، النجم، انشقاق، اقراء(91)۔
نماز جمعہ
یثرب میں کافی مسلم آبادی ہوگئی تو ان کے نقیب النقباء اور سردار حضرت اسعد بن زرارہ خزرجی رضی اللہ عنہ کو نماز جمعہ قائم کرنے کا خیال آیا۔ ان کے پڑوسی یہودی قبیلے ہفتہ میں خاص سبت(سنیچر) کی نماز جامع پڑھا کرتے تھے اور عیسائیوں نےاتوار کو چن لیا تھا۔ حضرت اسد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کو توفیق الٰہی سے جمعہ کے دن ہفتہ واری نماز جامع کا خیال آیا اور انہوں نے اپنے ایک سفر مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت لی۔ عبادات وارکان اور دوسرے تمام معاملات میں بھی صحابہ کرام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت وحکم کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے تھے کہ وہ خالص نبوی دائرہ عمل تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت وہدایت سے انہوں نے ظہر کے وقت دورکعت نماز جمعہ قائم کی