کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 125
جیسے اسراء ومعراج کے بعد کی نماز پنجگانہ وغیرہ کے اوقات کو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اسراء کی صبح کو اول وقت میں اور دوسرے دن آخر وقت میں آپ کو نماز کی تعلیم دے کر ان کے درمیان مقرر کیا تھا۔ نماز کی اصل پر اضافے بعد کے ہیں۔ معراج میں دو اصل رکعات نماز پر وقت کے لحاظ سے ایک وقت کی جگہ چار اور اوقات کی نمازوں کا اضافہ کیا گیا، فجر، ظہر، عصر، اورعشاء کی فرض نمازوں میں دودورکعات رہیں اور مغرب میں تین رکعات شروع سےرہیں۔ تین رکعات کی حکمت یہ تھی کہ وہ دن کی نماز وتر تھی۔ دن کی نمازوں ظہر وعصر، میں قراءت قرآن کریم سری(بلاآواز) شروع کی گئی تھی اور رات کی نمازوں، فجر، مغرب وعشاء، میں جہری قراءت رکھی گئی تھی اور یہ اول دن سے حکم آیا تھا۔ سورہ مزمل:29 کے مطابق تہجد کی نماز رات کی وتر تھی اور اس کی تین رکعات بنیادی یا اصل الوتر تھیں اور باقی ان پر اضافے، شروع میں نماز وتر فرض تھی۔ محققین مفسرین وعلماء کے مطابق ایک سال تک تہجد فرض رہی پھر اس کی خاص مشقت کی وجہ سے رحمت الٰہی نے اسے”نافلہ“(نفل) بنادیا۔ وہ سنت بن گئی۔ (87)۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رات کی نمازیں، نفل نمازیں، اپنی اپنی گھریلو مسجدوں میں پڑھتے تھے اور حرم پاک میں بھی اور قریشی مرد وعورت اور بچے ان کو دیکھتے، قراءت قرآن سنتے اور متاثر ہوتے تھے۔ شریعت محمدی اسلامی میں تمام زمین، پاک زمین، کو مسجد بنانے کی خاص عنایت الٰہی ملی تھی۔ اسی لیے اولین مسلمانان مکہ وغیرہ مختلف مقامات:وادیوں:گھاٹیوں، پہاڑ کی ترائیوں اور میدانوں میں۔ ہرجگہ نما ز ادا کرسکتے تھے اور کرتے تھے۔ (88)۔ ان سے امامت، اقتداء اور جماعت کے احکام معلوم ہوتے ہیں۔ اوربعد میں مسجد حرام میں امامت نبوی اور اقتداء صحابہ سے مزید تائید ہوتی ہے(89)۔ مکی دور میں مکہ میں نماز جمعہ نہیں تھی اور نہ ہی پانچ روزانہ نمازوں کی سنتیں تھیں۔ لیکن مدینہ اور جواثی بحرین میں نماز جمعہ اس مکی دور میں قائم کی گئی جیسا کہ آگے ذکر آتا ہے۔ لیکن