کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 123
جاہلی عرب وضو، غسل طہارت و جنابت سے واقف تھے اور حیض و نفاس کے مسائل بھی جانتے تھے۔ شریعت اسلامی نے ابتداء ہی سے طہارت کے احکام عطا کئے۔ سورہ مدثر:4 میں کپڑوں اور جسم دونوں کو پاک رکھنے کا حکم ہے۔ حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تفصیل بیان کی اور دین حنیفی کے احکام کی تصحیح کی۔ وضو کا طریقہ سکھایا اور پاکی کے لیے غسل اور جنابت سے صفائی کے لیے غسل کے احکام بتائے۔ عورتوں کی ماہواری(حیض)اور ولادت کے بعد گندگی (نفاس) سے صفائی کے طریقے کی اصلاح کی کہ ان سے سارا بدن دھونا ضروری ہے مگر ہاتھ پیروں سے پکڑی ہوئی چیزیں اٹھانے، کھانے پکانے اور دوسرے کاموں کی اجازت ہے کہ وہ گندگی نہیں ہوتی جیسا کہ اپنی انا حضرت اُم ایمن رضی اللہ عنہا کو ان کے زمانہ حیض میں چھوٹی چٹائی دینے کے سلسلہ میں بتایا تھا۔ ان کے علاوہ دس کم ازکم یا ان سے زیادہ خصال فطرت تھیں جو تمام انبیاء کرام کی سنتیں رہی تھیں۔ ان پر بھی عربوں کا عمل تھا اور اسلامی مکی شریعت میں بھی وہ شامل تھیں۔ داڑھی رکھنا، مونچھیں کتروانا، ناخن ترشوانا، ناک، بغل اور زیر ناف کے غیر ضروری بالوں کو صاف کرنا، کلی کرنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ختنہ کروانا وغیرہ شامل تھیں۔ (85) ارکان اسلام زیادہ بے خبری ارکان اسلام کے بارے میں ہے۔ حدیث نبوی کے مطابق اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: توحید ورسالت، صلوٰۃ (نماز)، زکوٰۃ، حج اور صیام (روزے) پر۔ عقل و منطق بتاتی ہے کہ جب اسلام تمام رسولوں کا دین ہے تو ان کے اسلام میں بھی یہ پانچوں بنیادی اصول تھے۔ ارکان میں سے چاروں۔ نماز، زکوٰۃ، حج اور روزے۔ بھی ان کی شریعت و دین میں تھے۔ اگر ان چاروں ارکان اسلام کو تمام پیغمبروں کے دین میں شامل و داخل نہ ماناجائے تو ان کا اسلام ناقص اور ایمان ادھورا رہ جائے گا اور یہ بالکل حقیقت کے خلاف ہوگا۔ قرآن مجید اور حدیث