کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 113
اعتراف پہلے کرایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کبھی ایلیا/بیت المقدس کاسفر نہیں کیا۔
2۔ کشف الٰہی سے جب بیت المقدس اور ارض مبارک نگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے موجود کردی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوالات کے جوابات میں تمام ارضی حقائق بیان کیے تو کفار قریش کے اکابر وعوام دونوں کو سخت تعجب ہوا اور ان کی طعن آمیز زبانیں بند ہوگئیں۔ تصدیق رسالت کے ساتھ اہل ایمان کے ہاتھ ایک اور دلیل نبوت آگئی۔
3۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے منطقی اور ایمانی استدلال یوں فرمایا تھا کہ ہم تو اس سے زیادہ عجیب وصحیح امر پر ایمان لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی وکلام الٰہی کے نزول کوتسلیم کرلیا(80)۔
واقعہ معراج
بخاری حدیث:3887 حضرت مالک بن صعصعۃ بن وہب نجاری مدنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جیسے متعدد دوسرے اطراف بخاری ان ہی سے منقول ہیں۔ بعض دوسرے مدنی صحابہ کرام سے بھی متعدد روایات واحادیث دوسری کتابوں میں بھی آئی ہیں اور وہ سب اصلاً کسی مکی صحابی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان کی روایات ہیں۔ تمام احادیث وروایات معراج کا بیان طول ِ کلام اور علمی وتحقیقی طوالت کا باعث ہوگا جس کا سردست مقام نہیں لہٰذا صرف بنیادی نکات پیش کیے جاتے ہیں:
1۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کے قطعہ حطیم سے یا مسجد حرام کے مقام حجر سے بحالت بیداری لانے کے لیے آئے۔
2۔ براق نامی ایک تیز رفتار جانور پر آپ کو سوار کیا جو انتہائی تیز رفتاری سے محو پرواز ہوا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام اپنے پروں پر محو پرواز تھے۔
3۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان دنیا پر لے گئے جہاں اعزاز وتکریم کی خاطر آپ