کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 112
وہی واقعیت کے معاملات ہیں۔ امام بخاری نےواقعہ اسراءکو الگ واقعہ معجزہ بناکر پیش کیا ہے کہ غالباً اس میں طے ارض اور کمترین مدت میں جسم وروح کے ساتھ سفر مبارک کا ذکر ہے۔ واقعہ معراج اگرچہ اسی واقعہ اسراء کے معاً بعد کا معجزہ ہے لیکن وہ زمین وآسمان کی حدود کو عبور کرنے اور آسمانوں کی پہنائیوں کو چیر کر لاہوتی حقائق کا مشاہدہ ہے۔ امام موصوف نے بہرحال باب حدیث الاسراء اور آیت سورہ اسراء : کی سرخی کے تحت صرف ایک حدیث 3886 حضرت جابر بن عبداللہ خزرجی رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔ اور سورہ اسراء کی تفسیر میں اوردوسری احادیث وروایات میں اس کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ حافظ شارح نے کافی مفصل ومدلل شرح وبحث ان مقامات پر کی ہے۔ (79)۔
واقعہ اسراء کی آیت کریمہ ہے:
(( سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ))
امام بخاری نے کتاب التفسیر کے”باب اسریٰ بعبدہ“میں دواحادیث:4709۔ 4710، حضرت ابوہریرہ دوسی رضی اللہ عنہ اور جابر بن عبداللہ خزرجی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہیں۔ یہ دونوں مدنی دور کے صحابی ہیں اوراول الذکر متاخر مدنی دور کے۔ اول الذکرصحابی جلیل سے حدیث 3886 کا مضمون قریب قریب یکساں ہے۔ تفصیلات سے قطع نظر، اس عظیم الشان معجزہ کا لب لباب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے جایا گیا تاکہ آپ کو ارض مقدس کے اردگرد بکھری ہوئی آیات الٰہی کا مشاہدہ کرایا جائے۔ آپ نے واپسی پر اپنے اس سفر مقدس کا ذکر صحابہ اور اکابرمکہ کے سامنے کیا تو اہل ایمان نےتصدیق کی اور اہل کفر نے انکار۔ حدیث اسراء کے مطابق آپ نے فرمایا جب قریش نے میری تکذیب کی تو میں نے مقام حجر میں کھڑے ہوکر دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے روشن وموجود کردیا اور میں اس کی آیات کو اپنے اس مشاہدہ کشف سے بیان کرتا رہا۔ دوسری روایات واحادیث وتشریحات سے اس مبہم بیان کی وضاحت ملتی ہے۔
1۔ حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی غالباً اکابر قریش سے