کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 108
فرمایا:”لو مشاہدہ کرو“اور ایک ٹکڑا پہاڑ کی طرف چلا گیا۔ تابعی حضرت مسروق رضی اللہ عنہ نےکہا کہ یہ واقعہ مکہ میں پیش آیا اور حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے اس کی صراحت دوسری متابع حدیث میں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی شرح وتعبیر میں متعدد دوسری کتب حدیث وسیرت سے مزید تفصیلات وجزئیات دی ہیں اور متعدد سوالات وتنقیدات کا جواب دیا ہے۔ ان میں عقلیت پسند فلاسفہ اور ان کے جمہور کے اس نقد کی تردید کی ہے کہ اجرام فلکی یا آیات علویہ میں خرق وانخراق اور التہام ونقص کا عمل نہیں واردہوتا۔ امام خطابی نے اس کا جواب دیا ہے کہ انشقاق قمر ایک عظیم معجزہ ہے اور معجزات انبیاء میں کوئی اس کا مساوی نہیں ہے کیونکہ وہ ملکوت سماوی میں واقع ہواتھا۔ عقلی استدلالات اور معجزاتی استشہادات کے طویل طویل مباحث کا خاتمہ صرف اس تبصرہ وفکر علماء سے ہوسکتا ہے کہ خود نبوت ورسالت اور اس سے وابستہ اہم ترین حقائق جیسے وحی، نزول جبرئیل علیہ السلام، تنزیل کتاب وحدیث وغیرہ بجائے خود عقل وقیاس اورمنطقی وفلسفیانہ استدلالات سے ماوراء ہیں۔ معجزات کامقصد رسالت محمدی پر دلیل وشہادت آسمانی قائم کرنا تھا اور مطالبہ کرنے والوں کی زبانیں بند اور عقلیں گم کرناتھااوران کی نگاہ بصیرت کھولنا تھا۔ مذکورہ بالاصحابہ کرام میں بیشتر مکی سابقین اولین کا یہ بھی عقیدہ وخیال ہے کہ اسی معجزہ شق قمرکا ذکر سورہ قمر((اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ)) میں بھی ہے۔ وہ ان صحابہ کرام کے خیال سے اتفاق نہیں کرتے جو اس آیت سے قیامت میں چاند کےپھٹنے کا حادثہ مراد لیتے ہیں کہ معجزہ شق قمر اصلاً قرب قیامت کی ایک دلیل ہے جیسےرسالت محمدی کو قرب قیامت کی ایک دلیل بنایا گیا ہے۔ معجزہ شق قمر نے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ کیا مگر اہل شقاق ونفاق اپنی عادت کفر پر ڈٹے رہے۔ (76)۔ قبولِ اسلام صحابہ میں معجزہ نبوی کی تاثیر مکی دور نبوی میں بعض معجزات نبوی اور آیات الٰہی نے تکوینی طور سے متعدد اکابرقریش اورسابقین اسلام کے قبول اسلام کی راہ ہموار کی، شق قمر کے معجزہ کے بیان