کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 107
لَكُمْ دِينَكُمْ ۚ))کا اعلان مدنی دور میں کیا گیا لیکن وہ اتمام وتکمیل واکمال ہی تو ہے، اصل قرآن تو مکی ہے، جس طرح اصل دین مکی ہے اور جس طرح اصل شریعت مکی ہے اور ان سب سے زیادہ جس طرح اصل نبوت محمدی ورسالت محمدی مکی دور کی ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات کریمہ میں مکی قرآن کو قرآن عظیم، القرآن، الفرقان جیسے جامع اسماء گرامی سےیاد کیا گیا ہے وہ اصل قرآن کی وجہ سے ہے۔ شارحین ومفکرین کا یہ خیال عزیز کہ جزو پرکل کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ منطق وفلسفہ کا اصول ہوسکتا ہے۔ اصل حقیقت پر تفصیل وتکمیل کا اضافہ اس کی کلیت کی نفی نہیں کرسکتا۔ معجزہ شق قمر مکی دوررسالت کا ایک اہم ترین معجزہ شق قمر ہے جس کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ روایات سیرت وحدیث وتاریخ میں کیا جاتا ہے۔ بعض قدیم ترین امامانِ سیرت نے کسی وجہ سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ ان میں امام ابن اسحاق سرفہرست ہیں اور شارح بخاری نے ان کے قصور ذکر کا حوالہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے زمانے کے ضمن میں کیاہے اور اس سے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ شق قمر کا معجزہ مکہ مکرمہ میں ان ہی ایام میں پیش آیاتھا۔ امام بخاری نے باب انشقاق القمرمیں چار احادیث بالترتیب حضرات انس بن مالک رضی اللہ عنہ خزرجی، عبداللہ(ابن مسعود ہذلی)، عبداللہ بن عباس ہاشمی، عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہیں۔ ان میں سے احادیث:3870۔ 3871ءمیں مبہم ذکر ہے کہ قمر (چاند) زمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شق ہوگیا تھا۔ زمانہ کی تعیین نہیں ہے۔ احادیث:3868۔ 3869 ءمیں مکہ اور خاص مقام اورسبب معجزہ کا ذکر ہے:اول الذکر میں وضاحت ہے کہ اہل مکہ نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ ان کو کوئی نشانی/معجزہ(آیت) دکھائیں:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےان کوقمر(چاند) کو دوٹکڑوں میں اس طرح دکھایا کہ ان دونوں کے درمیان کوہ حراء حائل تھا۔ حدیث حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ میں مزید صراحت ہے کہ جب چاند پھٹا تو ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے