کتاب: خطبات سرگودھا (سیرت نبوی ص کا عہد مکی) - صفحہ 105
طاقتور ان پر حاوی ہو کر ان کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتا۔ یہی ملکوتی عصمت بشری انبیاء کرام کو عطا ہوتی رہی کہ وہ بارگاہ الٰہی سے آئے ہوئے کسی امرو حکم میں کمی بیشی نہیں کرتے اور نہ کوئی ان سے کروا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت تکوینی کی اس جہت و صفت کو متعدد آیات قرآن کریم میں اور بہت سی احادیث شریفہ میں مسلسل مکی دور میں بیان کیا گیا ہے۔ کبھی یہ پیرا یہ اختیار کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ہوائے نفس سےکوئی نطق نہیں فرماتے اور جو زبان رسالت مآب سے نکلتا ہے وہ وحی ہوتی ہے جو منجانب اللہ آتی ہے۔ شیاطین الانس والجن کی شیطنت بھری ملاوٹ اور اندرون میں کسی تمنا کی کار یگری ہو جاتی ہے تو اسے صاف کر کے خالص کلام ووحی الٰہی محفوظ کردی جاتی ہے۔ کبھی یہ اظہار بھی لایا جاتا ہے کہ قلب محمدی پر جبریلی واسطہ سے جو پیغام الٰہی اور امر ربانی اتارا جاتا ہے جو قلب مصفی، مجلا پر اترتا ہے جس کی تطہیر کی جا چکی۔ جسمانی اور روحانی دونوں لحاظ سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تطہیر کامل اور تزکیہ شامل کا ایسا قطعی انتظام اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ خواہش نفس فنا ہوگئی تھی۔ عام طور سے عصمت نبوت کا یہ تصور و نظر یہ پیش کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گناہوں کے ارتکاب سے محفوظ کردیا گیا تھا اور بشریت سے کوئی لغزش ہوتی تو اس کی فوری اصلاح کی جاتی اور شائبہ لغزش محو کر کے خالص وحی و امر الٰہی باقی رہ جاتا۔ یہ محدود انسانی فکر و فلسفہ کا زائیدہ نظر یہ و خیال ہے اور فرو تر بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معصوم عن الخطاء اور عصمت نبوت کا اصل تصور و فکر یہ ہے کہ آپ ہر طرح سے محفوظ و معصوم بنائے گئے تھے، گناہ کا ارتکاب تو دور کی چیز تھی اس کا خیال بھی حاشیہ خاطر میں نہ آتا اور گناہ، منکر و شر کا سوال کیا پیدا ہوتا۔ آپ کا دل و جگر، جسم وبدن اور ذہن و دماغ کسی فررو تر شے کے خیال سے اور اعضاء و جوارح کے ذریعہ اس کے ارتکاب کے ارادہ سے محفوظ کردیا گیا تھا۔ بشریت کے تقاضوں کے سفلی پہلو کو علوی جہت کے تابع ہی نہیں کردیا گیا تھا بلکہ اسے رسول بشر کی عظیم ترین بلندی ورفعت عطا کی گئی تھی جس پر ملائکہ رشک کرتے اور خالق ارض و سما فخر فرماتا ہے۔ (74)۔