کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 93
کرتا ہے اور اولیاء الرحمن کو اولیاء الشیطان سے چھانٹ کر الگ اور ممتاز کر دیتا ہے۔ فرمایا: ﴿ وَلاَ یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِِلَّا جِئْنٰکَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِیْرًا﴾ [الفرقان: ۳۳] ’’اور وہ تیرے پاس کوئی مثال نہیں لاتے، مگر ہم تیرے پاس حق اور بہترین تفسیر بھیج دیتے ہیں۔‘‘ غیر اﷲ کی قسم کھانا: مسلمانو! یقینا مضبوط و مستحکم توحید میں یہ بات بھی شامل ہے کہ الفاظ و معانی میں بھی اﷲ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنے سے احتراز کیا جائے، اگرچہ ایسے الفاظ کے استعمال کرنے میں برے معانی کا مقصد و ارادہ نہ بھی ہو، غیر اﷲ کی قسم اٹھانا شرک اصغر ہے اور یہ قسم اٹھانے والا گناہ گار ہے اور خطرے میں ہے، اگر غیر اﷲ کی یہ قسم اٹھانے والے کے دل میں یہ چیز ہو کہ جس کی اس نے قسم اٹھائی ہے، وہ بھی اﷲ تعالیٰ کی طرح تعظیم کا مستحق ہے تو ایسی قسم اٹھانا شرکِ اکبر بن جائے گا۔ رسولِ ہدایت صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: (( مَنْ حَلَفَ بِغَیْرِ اللّٰہِ فَقَدْ کَفَرَ أَوْ أَشْرَکَ )) [1] ’’جس نے غیر اﷲ کی قسم کھائی تو یقینا اس نے کفر یا شرک کیا۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے: (( لَا تَحْلِفُوْا بِآبَائِکُمْ وَلَا بِأُمَّھَاتِکُمْ وَلَا بِالْأَنْدَادِ وَلَا تَحْلِفُوْا إِلَّا بِاللّٰہِ وَلَا تَحْلِفُوْا بِاللّٰہِ إِلَّا وَأَنْتُمْ صَادِقُوْنَ )) [2] ’’تم اپنے باپوں کی قسم کھاؤ اور نہ اپنی ماؤں اور شریکوں کی اور تم صرف اﷲ کی قسم کھاؤ اور اﷲ کی قسم صرف اسی وقت کھاؤ جب تم سچے ہو۔‘‘ لہٰذا کسی نبی، یا ولی، یا جن، یا کعبہ، یا کسی کے شرف اور زندگی کی قسم اٹھانا جائز نہیں ہے۔ قسم تو صرف اﷲ تعالیٰ کی، یا اس کے اسما یا اس کی صفات کی اٹھانا جائز ہے، چنانچہ جس شخص نے غیراﷲ کی قسم اٹھائی، اس کے ذمے واجب ہے کہ وہ اس سے توبہ کرے اور پھر اس طرح کی قسم نہ اٹھائے۔
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۵۳۵) المستدرک للحاکم (۴/ ۳۳۰) [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۲۴۸) سنن النسائي، رقم الحدیث (۳۷۶۹)