کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 92
حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والے نہیں۔‘‘ نیز اﷲ جل و علا فرماتے ہیں: ﴿ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ . حُنَفَآئَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہٖ وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ﴾ [الحج: ۳۰، ۳۱] ’’پس بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے بچو۔ اس حال میں کہ اﷲ کے لیے ایک طرف ہونے والے ہو، اس کے ساتھ کسی کو شریک کرنے والے نہیں اور جو اﷲ کے ساتھ شریک ٹھہرائے تو گو یا وہ آسمان سے گر پڑا، پھر اسے پرندے اچک لیتے ہیں، یا اسے ہوا کسی دور جگہ میں گرا دیتی ہے۔‘‘ اﷲ کے بندو! شرک کے وسائل اور ذرائع سے بچ جاؤ اور یاد رکھو کہ شرک کے متعلق جاننا، اس سے بچنے کا ایک طریق اور ذریعہ ہے۔ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’کَانَ النَّاسُ یَسْأَلُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنِ الْخَیْرِ وَکُنْتُ أَسْأَلُہٗ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَۃَ أَنْ یُّدْرِکَنِيْ )) [1] ’’لوگ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق پوچھا کرتے تھے، جبکہ میں ان سے برائی کے متعلق دریافت کیا کرتا تھا۔ مبادا وہ (برائی) مجھے لاحق ہوجائے۔‘‘ اے مسلمانو! بلاشبہہ قابلِ افسوس چیزوں میں سے ایک چیز بعض ایسے لوگوں کا، جن کا علم میں ہاتھ تنگ اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں نظر و اطلاع کم ہے، ان نظریات کا قائل ہوجانا ہے، جو توحید کے اصلِ مقصود کے یا اس کے کمالِ مطلوب کے منافی ہے، وہ کمال و اصل جو توحیدِ عبادت اور ملک العلام کی اطاعت کے احکام و مسائل کی تشہیر اور یاد دہانی کرتے ہیں۔ قرآن مجید کے واضح براہین اور سنت کے قطعی دلائل میں ایسا زبردست بیان اور وضاحت ہے جو پیاسے کو سیراب کرتا ہے، مصیبت زدہ کی فریاد رسی کرتا ہے، پریشان و حیرت زدہ کی راہنمائی
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۶۷۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۸۴۷)