کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 81
اﷲ عزوجل یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: ﴿ وَ مَا شَھِدْنَآ اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا﴾ [یوسف: ۸۱] ’’اور ہم نے شہادت نہیں دی، مگر اس کے مطابق جو ہم نے جانا۔‘‘ اہلِ علم نے کہا ہے: گواہی میں اصل یہ ہے کہ وہ مشاہدے اور معاینے کی بنیاد پر دی جائے اور اس کی اساس اسبابِ علم میں سے ایک قوی سبب پر ہو، جو معاملات اس قسم کے ہوں کہ گواہی دینے والا ان کا مشاہدہ کر سکتا ہو، جیسے: قتل، چوری، ڈاکا، رضاعت اور زنا وغیرہ تو ان کے حق میں آنکھوں کے ساتھ معاینے اور مشاہدے کے بغیر گواہی دینا درست نہیں ہے اور جن معاملات کی نوعیت یہ ہے کہ انھیں بس سنا جا سکتا ہو تو ان کے متعلق گواہ کے لیے گواہی کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ انھیں سن کر اور ان کے قائل کا مشاہدہ کر کے گواہی دے، جیسے: عقود نکاح، بیوع اور طلاق وغیرہ۔ جھوٹی گواہی کا انجام: اسلامی بھائیو! گواہی کے متعلق ابھی جو اصول و ضوابط بیان ہوئے ہیں، ان سے یہ ثابت ہوا کہ انسان کا ایسی چیز کے متعلق گواہی دینا، جسے وہ جانتا ہی نہیں ہے، جرمِ عظیم اور بہت بڑی آفت ہے۔ ہاں! ایسا کیوں نہ ہو، یہی تو وہ ’’شہادۃ الزور‘‘ ہے جو اہلِ علم کے ہاں جھوٹی گواہی کے تعارف سے مشہور ہے، اس کے محرکات اور وجوہ کیسی بھی ہوں، اس گواہی کی کوئی صحیح بنیاد نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’زور‘‘ کے مفہوم کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ کسی چیز کو خلافِ واقع بتایا جائے، کبھی یہ بات میں ہوتی ہے، جس کی بنا پر وہ جھوٹ اور باطل پر مشتمل ہوتی ہے اور کبھی گواہی میں جھوٹ بولنے کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے۔‘‘[1] اﷲ کے بندو! یقینا جھوٹی گواہی اکبر الکبائر اور اعظم الذنوب ہے۔ اﷲ جل و علا فرماتے ہیں: ﴿ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ﴾ [الحج: ۳۰] ’’اور جھوٹی بات سے بچو۔‘‘ امام ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر وعظ کیا اور فرمایا: (( أَیُّھَا النَّاسُ عُدِلَتْ شَھَادَۃُ الزُّوْرِ إِشْرَاکاً بِاللّٰہِ ثُمَّ قَرأَ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : فَاجْتَنِبُوا
[1] فتح الباري (۱۰/ ۴۱۲)