کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 75
ہے، عزت کے بعد ذلیل ہوجاتا ہے اور اس سے دنیا کی حرص اور لالچ ختم ہوچکی ہوتی ہے، تو کلمے کے ساتھ وہ شہادت اور گواہی اس کے اعمال کا خاتمہ ثابت ہوتی ہے، وہ اسے گناہوں سے پاک کر دیتی ہے اور اسے اس کے رب تعالیٰ کے پاس داخل کر دیتی ہے، کیونکہ اس نے اپنے رب رحمن کے ساتھ ایسی شہادت کے ساتھ ملاقات کی جو خالص ہے، اس کا ظاہر اس کے باطن سے موافق ہے اور اس کا پوشیدہ اس کے علانیہ کے ساتھ موافق ہے۔‘‘[1] میت کے حسنِ اعمال کا تذکرہ: گذشتہ حدیث سے ضمناً یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ قریب المرگ کے پاس جانا مستحب ہے، تاکہ اسے کچھ نصیحت کی جائے اور اس کی تسلی و تشفی کرائی جائے، لوگ اس بات کو بھی مستحب جانتے تھے کہ موت کے وقت بندے کے اچھے اعمال کا تذکرہ کیا جائے، تاکہ اس کا اپنے رب تعالیٰ کے ساتھ گمان اچھا ہوجائے، چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا یَمُوْتَنَّ أَحَدُکُمْ إِلَّا وَھُوَ یُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ )) [2] ’’تم میں سے ہر شخص اپنی وفات کے وقت اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان رکھے۔‘‘ سنتِ مطہرہ نے میت کے محاسن کا ذکر کرنے اور اس کے عیوب بیان کرنے سے رک جانے پر آمادہ کیا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّھُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلٰی مَا قَدَّمُوْا )) [3] ’’فوت شدگان کو برا مت کہو، کیوں کہ وہ اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔‘‘ صحیح بخاری میں ابو الاسود سے مروی ہے کہ میں مدینے میں اس وقت آیا، جب وہاں ایک مرض کی وبا پھوٹی ہوئی تھی۔ میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا، اتنے میں ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو اس میت کی تعریف کی گئی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: واجب ہوگئی، پھر ایک اور جنازہ گزرا، اس پر بھی تعریف کی گئی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پھر کہا: واجب ہوگئی، پھر ایک تیسرا جنازہ گزرا، جس کو لوگوں نے برے الفاظ
[1] الفوائد لابن القیم (ص: ۵۵) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۸۷۷) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۳۹۳)