کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 72
عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم صحت و تندرستی کی حالت میں فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کو اس کی روح قبض کرتے وقت جنت میں اس کا مقام دکھایا جاتا اور پھر اسے اختیار دیا جاتا ہے (کہ ابھی مزید دنیا میں رہنا چاہتے ہو تو رہ لو اور اگر جنت کے اس مقام میں آنا چاہتے ہو تو اس کا بھی تمھیں اختیار ہے) جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر موت کی غشی کچھ دیر کے لیے طاری ہوئی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھت کی طرف اپنی نگاہ اٹھائی اور فرمایا: (( اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقَ الْأَعْلٰی )) میں نے کہا: تب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ رہنا پسند نہیں کریں گے۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ یہ تو وہی اختیار دیا جانا ہے، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ذکر فرمایا کرتے تھے۔ صحیح حدیث میں ہے، کہتی ہیں کہ یہ وہ آخری کلمات تھے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہوئے تھے۔[1] قیامت کے دن دو گروہ: موت اور اس کی شدت کے وقت، قبر اور اس کے اندھیرے میں اور قیامت کے دن کی ہولناکیوں میں لوگوں کے دو گروہ ہوں گے، ایک گروہ تو وہ ہوگا جو مصائب کی ان گھڑیوں میں ثابت قدم رکھا جائے گا، ان کے خوف سے پُر امن رہے گا اور اسے جنت کی خوشخبری دی جائے گی اور دوسرا گروہ وہ ہوگا، جسے ان مقامات پر انتہائی ذلت و رسوائی کی تکلیف و مشقت جھیلنا پڑے گی۔ فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ اِِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴾ [حم السجدۃ: ۳۰] ’’بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا: ہمارا رب اﷲ ہے، پھر خوب قائم رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو اور اس جنت کے ساتھ خوش ہوجاؤ، جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے۔‘‘ استقامت اختیار کرنے والے مومنوں پر ان کی موت کے وقت، ان کی قبروں میں اور قبروں سے دوبارہ اٹھنے کے وقت فرشتے اترتے ہیں، ان کے نفسوں کو مطمئن کرتے ہیں اور آخرت کے ڈر اور خوف سے انھیں امن دلاتے ہوئے اور انھیں تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم نے جو اعمال آگے
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۴۶۳) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۴۴۴)