کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 69
اور اگر اعمال برے تو انجام بھی ایسا ہی ہوگا۔ آج کے دور میں ہم بعض خبریں پھیلانے والے اس طرح کے ہیں، جو ہنسی کھیل اور غفلت کا شکار ہیں، یا دلوں کو سخت کر دینے والی غفلت کے سبب دکھلاوے اور شہرت چاہنے کے عادی ہوجاتے ہیں اور ان کی یہ غفلت یہ نوبت لاتی ہے کہ اسے اہوالِ برزخ کی ہولناکیاں اور آخرت بھول جاتے ہیں۔ ہم اﷲ تعالیٰ سے اس غفلت سے بیداری کا سوال کرتے ہیں، موت جسے بچھاڑنے والی ہے، جس کا بستر مٹی ہے، قبر اس کا ٹھکانا ہے، زمین کا پیٹ جس کا مستقر ہے، جس کے وعدے کی جگہ قیامت کا دن ہے اور جس کا مورد جنت یا جہنم ہو، اس کے لائق یہ ہے کہ وہ موت کو خوب یاد رکھے، اس کے لیے تیاری کرے اور اس کے متعلق غور و فکر کرے۔ اس کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کرے اور اپنے آپ کو اہلِ قبور سے سمجھے، کیوں کہ ہر آنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے، جب ملک الموت آجائے گا، تو تیرا مال اور تیری بھرپور تیاری اسے تیرے پاس آنے سے روک نہ سکے گی۔ . أَیْنَ الَّذِیْنَ بَلَغُوْا الْمُنٰی فَمَا لَھُمْ فِيْ الْمُنٰی مُنَازِعٌ ’’کہاں ہیں وہ لوگ جو اپنی تمنائیں اس طرح پوری کرنے میں کامیاب ہوئے کہ ان آرزوؤں میں کوئی ان سے منازعت کرنے والا نہ تھا۔‘‘ جَمَعُوْا فَمَا أَکَلُوْا الَّذِيْ جَمَعُوْا بَنَوْا مَسَاکِنَھُمْ فَمَا سَکَنُوْا ’’انھوں نے جمع کیا مگر اپنے جمع شدہ سے کچھ نہ کھایا، انھوں نے اپنی رہایش گاہیں تعمیر کیں، لیکن وہ ان میں رہایش نہ کر سکے۔‘‘ لیکن ہم ہیں کہ موت کو بھول جاتے ہیں اور زندگی کے سمندر میں یوں تیرتے رہتے ہیں، گویا ہم اس دارِ فانی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، جبکہ اویس قرنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’تَوَسَّدُوْا الْمَوْتَ إِذَا نِمْتُمْ وَاجْعَلُوْہُ نُصْبَ أَعْیُنِکُمْ إِذَا قُمْتُمْ‘‘[1] ’’سوتے وقت موت کو سرہانا بنا کر سویا کرو اور جب تم نیند سے اٹھ جاؤ تو اسے اپنا نصب العین بنا کر رکھو۔‘‘
[1] کتاب الزھد الکبیر للإمام البیھقي (۲/ ۲۶۱) یہ امام ذوالنون مصری کا قول ہے۔