کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 619
بلاشبہہ مومن جس طرح نافرمانیوں اور برائیوں سے رک کر صبر کرتا ہے، اسی طرح وہ اﷲ عزوجل سے اجر و ثواب کی امید باندھتے ہوئے اطاعات بجا لا کر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس پر اس کا دل مضبوط ہو جاتا ہے اور وہ خیر و بھلائی کے کاموں پر عزم بالجزم کر لیتا ہے، چنانچہ وہ نیکی کے ان کاموں کو بجا لانے اور گناہوں سے رکنے میں اپنے نفس سے مجاہدہ کرتا ہی رہتا ہے، حتی کہ اﷲ تعالیٰ اسے حسن خاتمہ کی توفیق دے دیتا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ وَ یُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِیْنَ وَ یَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآئُ﴾ [إبراھیم: ۲۷] ’’اﷲ ان لوگوں کو جو ایمان لائے، پختہ بات کے ساتھ خوب قائم رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی اور اﷲ ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اﷲ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔‘‘ نیز ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ [العنکبوت: ۶۹] ’’اور وہ لوگ جنھوں نے ہمارے بارے میں پوری کوشش کی، ہم ضرور ہی انھیں اپنے راستے دکھا دیں گے اور بلاشبہہ اﷲ یقینا نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ اعمالِ صالحہ پر مداومت و ہمیشگی اختیار کرنا حسابِ آخرت میں آسانی اور اﷲ تعالیٰ کے اپنے بندے سے تجاوز کرنے کا سبب اور باعث بنتی ہے۔ سیدنا حذیفہ اور ابو مسعود رضی اللہ عنہما ایک جگہ اکٹھے ہوئے تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: (( رَجُلٌ لَقِيَ رَبَّہٗ فَقَالَ: مَا عَمِلْتَ؟ قَالَ: مَا عَمِلْتُ مِنَ الْخَیْرِ إِلَّا أَنِّيْ کُنْتُ رَجُلًا ذَا مَالٍ فَکُنْتُ أُطَالِبُ بِہِ النَّاسَ، فَکُنْتُ أَقْبَلُ الْمَیْسُوْرَ وَأَتَجَاوَزُ عَنِ الْمَعْسُوْرِ، فَقَالَ: تَجَاوَزُوْا عَنْ عَبْدِيْ )) [1] ’’(قیامت کے دن) ایک آدمی اپنے رب تعالیٰ سے ملا تو اس نے پوچھا: (اے میرے بندے!) تونے (دنیا میں) کیا عمل کیا؟ اس نے کہا: میں نے کوئی بھلا کام تو نہیں کیا،
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۰۷۷) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۵۶۰)