کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 614
اجر و ثواب سے نوازا جائے گا۔ جس شخص نے کسی فقیر کی غم خواری کی، کسی یتیم کی کفالت کی، جس نے کسی بیمار کی عیادت کی، کسی ڈوبتے کو بچایا، کسی حاجت مند، مصیبت زدہ کی مدد کی، کسی تنگ دست کو مہلت دی اور کسی گمراہ کی راہنمائی کی تو اس نے ایک عملِ صالح ہی کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَۃٌ )) [1] ’’ہر معروف اور نیکی صدقہ ہے۔‘‘ ہر وہ عمل جس سے دوسرے لوگ فائدہ اٹھائیں تو اس عمل کو سر انجام دینے والے کو اس پر اجر و ثواب ملتا ہے اور اس کا وہ عمل اعمال صالحہ میں سے شمار ہوتا ہے۔ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک بھی عملِ صالح ہے، دیکھو تو! ایک آدمی نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلا دیا، اﷲ عزوجل نے اس کے اس معمولی عمل کی قدر کرتے ہوئے اسے بخش دیا۔[2] تنگ دستوں کو مہلت دینا اور ان سے بوجھ ہلکا کرنا بھی عملِ صالح ہے۔ درخت لگانا اور لوگوں کے راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا بھی ایک نیک عمل ہے۔ سچی نیت کے ساتھ معاشرے کی عام خدمت کرنا اور عام مسلمانوں کی ضروریات کا پاس لحاظ کرنا بھی اعمالِ صالحہ میں شمار ہوتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( مَرََّ رَجُلٌ بِغُصْنِ شَجَرَۃٍ عَلٰی ظَھْرِ طَرِیْقٍ فَقَالَ: وَاللّٰہِ لَأُنْحِیَنَّ ھٰذَا عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ لَا یُؤْذِیْھِمْ، فَأُدْخِلَ الْجَنَّۃَ )) [3] ’’ایک آدمی راستے میں رکاوٹ بننے والی ایک درخت کی شاخ کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: اﷲ کی قسم! بلاشبہہ میں ضرور اسے مسلمانوں سے دور کروں گا تاکہ وہ انھیں تکلیف نہ پہنچائے تو وہ (اس عملِ صالح پر) جنت میں داخل کر دیا گیا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے: (( اَلإِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ شُعْبَۃً )) ’’ایمان کے ستر سے اوپر شعبے اور درجے ہیں۔‘‘ نیز اسی حدیث میں ہے:
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۰۲۱) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۷۴) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۲۴۴) [3] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۴۷۲) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۹۱۴)