کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 606
مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ بِمَکَانٍ قَبْلَ أَنْ یَقَعَ عَلَی الْأَرْضِ، فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْسًا )) [1] ’’یوم نحر میں کیے گئے اعمال میں سے خون بہانے سے بڑھ کر بنی آدم کا کوئی عمل اللہ کو پسند نہیں ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور کو اس کے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت لایا جائے گا (حسنات کے پلڑے میں ڈالا جائے گا) اور قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے یہاں قبولیت کا مقام پالیتا ہے، لہٰذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔‘‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ یَوْمَ أَضْحٰی أَفْضَلُ مِنْ دَمٍ یُھْرَاقُ إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ رَحِمًا یُّوْصَلُ )) [2] ’’عید الاضحی کے دن ابن آدم کا افضل عمل (قربانی کا) خون بہانا ہے، البتہ صلہ رحمی کا مقام زیادہ ہے۔‘‘ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( یَا فَاطِمَۃُ، قُوْمِيْ إِلٰی أُضْحِیَتِکِ، فَاشْھَدِیْھَا، فَإِنَّ لَکِ بِکُلِّ قَطْرَۃٍ، مِنْ دَمِھَا مَا سَلَفَ مِنْ ذُنُوْبِکِ )) قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ، أَ لَنَا خَاصَّۃً أَھْلَ الْبَیْتِ؟ أَوْ لَنَا وَ لِلْمُسْلِمِیْنَ؟ قَالَ: (( بَلْ لَنَا وَ لِلْمُسْلِمِیْنَ )) [3] ’’اے فاطمہ! قربانی کے جانوروں کی طرف جاؤ اور انھیں دیکھو، ان کے خون کے ہر قطرے کے بدلے میں تمھارے سابقہ گناہوں کو بخشا جائے گا۔‘‘ انھوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ معاملہ صرف ہم اہلِ بیت کے لیے ہی خاص ہے یا عام مسلمانوں کے لیے بھی یہی اجر و ثواب ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’نہیں! بلکہ یہ ہمارے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے یکساں ہے۔‘‘
[1] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۴۹۳) سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۳۱۲۶) اس کی سند میں ’’سلیمان بن یزید ابو المثنی‘‘ ضعیف ہے۔ [2] المعجم الکبیر (۱۱/ ۳۲) اس کی سند میں ’’یحییٰ بن حسن خشنی‘‘ راوی ضعیف ہے۔ [3] المستدرک للحاکم (۴/ ۲۲۲) اس کی سند میں ’’عطیۃ بن قیس‘‘ ضعیف ہے۔ دیکھیں: السلسلۃ الضعیفۃ (۲/ ۱۵)