کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 60
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یونہی سفر طے کرتے ہوئے مکرم اور معزز بن کر مدینہ جا پہنچے۔ مدینے کا ہر باسی یہ چاہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر میں سکونت اختیار کریں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مسجد (مسجد نبوی) کی جگہ میں آکر بیٹھ گئی، کیونکہ وہ منزل کے اختیار اور چناؤ میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مامور تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جگہ خریدی اور اس پر مسجد تعمیر کر دی، جہاں سے قیامت کے دن تک ساری دنیا میں نورِ ایمان کی کرنیں پڑتی رہیں گی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے حجرے تعمیر کیے گئے، اسلام اور مسلمانوں کی نصرت اور ہر راستی والے عمل سے بھرپور ایک نئے مبارک و میمون دور کا آغاز ہوا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ رسالت میں مکہ سے اور ہر اس جگہ سے، جہاں مسلمان اپنے دینی شعائر پر عمل کرنے کی قدرت نہ رکھتا تھا، مدینے کی طرف ہجرت کرنا واجب اور لازم ٹھہرا۔ ہجرت ایک ایسا صالح عمل ہے، جس کے ذریعے لوگ بلند مرتبوں پر فائز ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اَلْإِسْلَامُ یَھْدِمُ مَا قَبْلَہٗ وَالْھِجْرَۃُ تَھْدِمُ مَا قَبْلَھَا )) [1] ’’اسلام اور ہجرت گذشتہ گناہوں کو مٹا دیتے ہیں۔‘‘ فتح مکہ کے بعد وہاں سے ہجرت کرنا منسوخ ہوگیا، لیکن جس ملک اور علاقے میں مسلمانوں کے لیے اپنے اپنے شعائر کو قائم کرنا ممکن نہ ہو، ان پر واجب ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر ایسے ملک اور علاقے کی طرف ہجرت کر جائیں، جہاں وہ آزادی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کر سکیں۔ حدیث میں آتا ہے: (( لَا تَنْقَطِعُ الْھِجْرَۃُ حَتّٰی تَنْقَطِعَ التَّوْبَۃُ، وَلَا تَنْقَطِعُ التَّوْبَۃُ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا )) [2] ’’ہجرت تب تک ختم نہیں ہوگی، جب تک توبہ کا وقت ختم نہیں ہوجاتا اور توبہ کا وقت ختم نہیں ہوگا، جب تک سورج اپنے مغرب سے طلوع نہیں ہوگا۔‘‘ ہجرت کے فوائد: عہدِ نبوت میں مدینے کی طرف ہجرت معجزات میں سے ایک معجزہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت
[1] دیکھیں: صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۲۱) [2] مسند أحمد (۴/ ۹۹) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۴۷۹)