کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 597
’’جو شخص بچے پر ترس نہیں کھاتا اور بڑے کی عزت نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: (( اِبْغُوْنِيْ فِي الضُّعَفَآئِ، فَإِنَّمَا تُنْصَرُوْنَ وَ تُرْزَقُوْنَ بِضُعَفَآئِکُمْ )) [1] ’’مجھے ضعفا اور کمزوروں میں ڈھونڈو، کیوں کہ تم ضعیف اور کمزور لوگوں کی وجہ سے فتح و نصرت اور رزق دیے جاتے ہو۔‘‘ مسلمانوں میں باہمی محبت و مودت اسلام کے عظیم اغراض و مقاصد میں سے ایک عظیم مقصد ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا، وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوْا، أَوَلَا أَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیْیٍٔ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ؟ أَفْشُوْا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ )) [2] ’’تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک تم ایمان نہ لے آو اور تم اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے جب تک تم باہم محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمھیں ایک کام نہ بتاؤں کہ اگر تم اسے کر لو تو تم باہم محبت کرنے لگ جاؤ گے؟ اپنے درمیان سلام کو عام کردو۔‘‘ مسلمانو! اپنے نفس سے جہاد کرو اور اپنے سینے کو دوسرے مسلمانوں کی طرف سے صاف کر لو، کیونکہ سینے اور دل کی صفائی دنیا کی نعمت اور بدن کے لیے راحت اور آخرت میں اللہ کی رضا کا باعث ہے۔ چنانچہ عبدا للہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! لوگوں میں سے افضل کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( کُلُّ مَخْمُوْمِ الْقَلْبِ، صَدُوْقُ اللِّسَانِ )) قَالُوْا: فَمَا مَخْمُوْمُ الْقَلْبِ؟ قَالَ: ((ھُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ، لَا إِثْمَ فِیْہِ وَلَا بَغْيٌ وَلَا غِلٌّ وَلَا حَسَدٌ )) [3] ’’ہر صاف دل اور سچی زبان والا۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: صاف دل والا کون ہے؟
[1] مسند أحمد (۵/ ۱۹۸) سنن أبي داود، رقم الحدیث (۲۵۹۴) سنن الترمذي، رقم الحدیث (۱۷۰۲) سنن النسائي، رقم الحدیث (۳۱۷۹) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۵۴) [3] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث (۴۲۱۶)