کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 594
وہ ارشاد جسے ہم عید کی نماز اور اپنی دیگر تمام نمازوں میں بار بار پڑھتے رہتے ہیں۔ توحید کا اپنانا ہی وہ عظیم عمل ہے، جس کے نتیجے میں انسان نعمتوں والی جنتوں میں داخل ہوجاتا ہے اور اگر کوئی شخص توحید کو کھوہ بیٹھا تو اسے اس کا دوسرا کوئی عمل فائدہ نہ دے سکے گا اور وہ ہمیشہ کا جہنمی بن جائے گا۔ توحیدِ عبادت: بشری تاریخ پر غور و فکر کرنے والا شخص اس راز کو پاجاتا ہے کہ سب سے پہلے توحید ہی میں بدعات و ضلالتیں اور انحرافات واقع ہوئے اور اس کے بعد دین کی دوسری فروع میں بگاڑ شروع ہوا، لہٰذا اے مسلمانو! اس اصلِ عظیم کو خوب مضبوطی سے پکڑے رکھیں، کیونکہ یہ آپ پر اللہ کا حق ہے اور یہی وہ میثاق و معاہدہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے عالمِ ارواح میں بنی آدم سے کیا تھا۔ توحیدِ عبادت کی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جا بہ جا تاکید فرمائی ہے اور اس کی عظمت و شان بیان کی ہے۔ قرآنِ کریم میں کوئی سورت ایسی نہیں جس میں نصاً، ضمناً یا التزاماً کسی نہ کسی رنگ میں اللہ تعالیٰ نے اس توحیدِ عبادت کا حکم نہ دیا ہو، موحدین کے ثواب کا تذکرہ نہ کیا ہو یا مشرکین کے عقاب و عذاب کا ذکر نہ فرمایا ہو۔ جس نے اللہ کا یہ حقِ توحید ادا کیا، اللہ اپنے فضل و کرم سے اپنا وعدۂ جنت پورا فرمائے گا، چنانچہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : (( حَقُّ اللّٰہِ عَلَی الْعِبَادِ أَنْ یَّعْبُدُوْہٗ وَلَا یُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا، وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اللّٰہِ أَنْ لَا یُعَذِّبَ مَنْ لَّا یُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا )) [1] ’’بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور اللہ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ شرک نہ کرنے والے کسی بندے کو عذاب نہ دے۔‘‘ گویا یہ توحیدہی دین کا اول و آخر ہے ۔ شہادتِ رسالت: عید کے عظیم معانی و مقاصد میں سے دوسرا مقصد یہ ہے کہ بندے کلمۂ شہادت ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں‘‘ کے تقاضوں اور معنوں پر عمل کریں، وہ کلمہ جسے مسلمان عید کی نماز میں اور اپنی
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۲۸۵۶) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۳۰)