کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 58
﴿ اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾ [التوبۃ: ۴۰] ’’اگر تم اس کی مدد نہ کرو، تو بلاشبہہ اﷲ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا، جنھوں نے کفر کیا، جبکہ وہ دو میں سے دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا: غم نہ کر، بے شک اﷲ ہمارے ساتھ ہے، تو اﷲ نے اپنی سکینت اس پر اتار دی اور اسے ان لشکروں کے ساتھ قوت دی جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کی بات نیچی کر دی جنھوں نے کفر کیا، اور اﷲ کی بات ہی سب سے اونچی ہے اور اﷲ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ کفار کے ناپاک ارادے: ہجرت سے قبل اور اس کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کئی دفعہ قتل کے منصوبوں کی زد میں آئے۔ تاریخ نگاروں نے ذکر کیا ہے کہ ایک دن ابو جہل نے گیدر بھبکی چھوڑتے ہوئے کہا: لات و عزّی کی قسم! اگر میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبۃ اﷲ کے پاس سجدہ کرتے ہوئے دیکھ لیا تو میں ضرور ایک پتھر پکڑوں گا اور ان کے سر کو کچل کر روئی کی مانند بنا دوں گا، لہٰذا تم میری ہاں میں ہاں ملاؤ، یا مجھے اس کام سے روک دو۔ لوگوں نے جواب دیا: واﷲ! اے ابو الحکم! ہم اس معاملے میں تمھارے ساتھ نہیں ہیں، چنانچہ اگلے دن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور کعبہ کے پاس نماز ادا کرنے لگے تو ابو جہل نے ایک بڑا سا پتھر پکڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے لگا، قریش اپنی مجلس میں بیٹھے یہ منظر دیکھ رہے تھے، پھر اچانک ابوجہل الٹے پاؤں پیچھے کو دوڑا، اس کا رنگ اڑا ہوا اور جسم کانپ رہا تھا، اسے پوچھا گیا: ابو الحکم! کیا بنا؟ اس نے کہا: میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک طاقتور اونٹ حائل ہوگیا، اﷲ کی قسم! میں نے اس کے سر جیسا سر اور حجم پہلے کبھی نہیں دیکھا، اس کا ارادہ تھا کہ مجھے کھا جائے، اس لیے میں الٹے پاؤں واپس بھاگا، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: