کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 571
زیادہ قبول ہوتی ہے، یہ فعل حرام ہے کیونکہ یہ فعل اسبابِ شرک اور ذرائعِ افک و کذب میں سے ہے۔ کسی قبر کے پاس کھڑے ہوکر یا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے پاس کھڑے ہوکر کی گئی دعا اگر افضل و اعلیٰ اور اللہ کو زیادہ پسندیدہ ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بتا کر جاتے، کیونکہ جنت کے قریب کرنے والی کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بغیر بتائے اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کچھ نہیں فرمایا، تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ فعل غیر مشروع اور حرام و ناجائز ہے۔ حافظ ابو یعلیٰ نے اپنی مسند میں اور ضیاء المقدسی نے اپنی کتاب ’’الأحادیث المختارۃ‘‘ میں سیدنا علی بن حسین رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت بیان کی ہے کہ انھوں نے کسی آدمی کو دیکھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس ایک جگہ آتا اور وہاں داخل ہوکر دعا کرتا ہے، انھوں نے اسے منع فرما دیا اور کہا: ’’کیا میں تمھیں ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے اپنے والد اور انھوں نے میرے دادا اور انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی؟ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( لَا تَتَّخِذُوْا قَبْرِيْ عِیْدًا، وَلَا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا، وَصَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّ تَسْلِیْمَکُمْ یَبْلُغُنِيْ أَیْنَ مَا کُنْتُمْ )) [1] ’’میری قبر کو عیدگاہ بناؤ نہ اپنے گھروں کو قبریں بنالو، مجھ پر صلات و سلام پڑھو، جہاں سے بھی تم مجھ پر صلات و سلام پڑھو گے، وہ مجھ تک پہنچ جائیں گے۔‘‘ 5۔بعض لوگوں کا زائرین مدینہ کے ہاتھوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سلام بھیجنا اور بعض لوگوں کا یہ سلام پہنچانا ، یہ ممنوع فعل اور نئی ایجاد کردہ بدعت ہے۔ اے سلام بھیجنے اور سلام پہنچانے والو! تم سب کے لیے یہی کافی نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: (( صَلُّوْا عَلَیَّ فَإِنَّ تَسْلِیْمَکُمْ یَبْلُغُنِيْ أَیْنَ مَا کُنْتُمْ )) [2] ’’مجھ پر صلات و سلام پڑھو ، تم جہاں ہوتے ہوئے بھی صلات و سلام پڑھو گے وہ مجھے پہنچ جائے گی۔‘‘
[1] مسند أبي یعلی (۱/ ۳۶۱) [2] مصدر سابق، نیز دیکھیں: مسند أحمد (۲/ ۳۶۷)