کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 555
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( کُلُّکُمْ لِآدَمَ، وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ، إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ، لَیْسَ لِعَرَبِيٍّ عَلٰی أَعْجَمِيٍّ، وَلَا أَعْجَمِيٍّ عَلٰی عَرَبِيٍّ، وَلَا لأَِحْمَرَ عَلٰی أَبْیَضَ، وَلَا لِأَبْیَضَ عَلَی أَحْمَرَ، فَضْلٌ إِلَّا بِالتَّقْویٰ )) [1] ’’تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی، تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تقویٰ و پرہیزگاری میں سب سے آگے ہے، کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر، کسی لال کو سفید پر اور کسی سفید کو لال پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقوے کے۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اعلان نے تمام کھوکھلی دنیوی قدروں اور فوارق و امتیازات پر پانی پھیر دیا۔ انسان کے لال یا کالے رنگ، اس کے نسب یا مال اور دنیوی منصب و جاہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے، کیونکہ یہ چیزیں انسان اللہ تعالیٰ سے عبودیت اور سنتِ کونی کی رو سے پاتا ہے، اس میں اس کا اپنا کوئی اختیار و کردار نہیں ہوتا، البتہ ادھر ایک میزان ہے جس پر لوگوں میں چھوٹے بڑے کا فرق کیا جا سکتا ہے اور وہ میزان یہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ﴾ [الحجرات: ۱۳] ’’تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ تقوے والا ہے۔‘‘ جس کا ایمان سب سے قوی اور جس کا عمل سب سے بہتر ہوگا، وہ سب سے افضل ہوگا۔ غزوۂ بنی مصطلق کے موقع پر ایک غیر اسلامی چیز (قبائلی تعصّب) صف مسلم میں داخل ہونے لگی اور اس پاکیزہ معاشرے میں در آنے لگی جس کی زمام کار خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھامے ہوئے تھے۔ اسے دیکھتے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں تمھارے مابین موجود ہوں اور تم ابھی سے عہدِ جاہلیت کی عادت کو اپنانے لگے ہو؟ (( دَعُوْھَا فَاِنَّھَا مُنْتِنَۃُ )) [2] یعنی اسے چھوڑ دو، کیوں کہ وہ جاہلیت کی بدبودار عادت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذرا بھر کے لیے بھی یہ گوارا نہ ہوا کہ لفظی حد تک بھی ان میں قومی تعصب
[1] مسند أحمد (۵/ ۴۱۱) حلیۃ الأولیاء (۳/ ۱۰۰) السلسلۃ الصحیحۃ، رقم الحدیث (۲۷۰۰) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۴۹۰۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۵۸۴)