کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 553
ایک دن اسے لایا گیا اور اسے کوڑے مارے گئے، لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: اے اللہ! اس پر لعنت فرما کہ یہ بار بار پکڑ کر لایا جاتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا تَلْعَنُوْہُ، فَوَاللّٰہِ مَا عَلِمْتَ أَنَّہٗ یُحِبُّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ )) [1] ’’اسے لعنت نہ کرو کیونکہ اللہ کی قسم تم نہیں جانتے وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اسلام نے صرف زندگی کی حد تک ہی انسان کی حمایت و نگرانی اور اس کی عزت و آبرو کے تحفظ پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ انسان کے مرنے کے بعد بھی اس کے احترام کو ملحوظ رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے غسل دینے، کفن پہنانے، اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے اور اسے دفن کرنے کا حکم ہے اور میت کی کوئی ہڈی توڑنے، اس کی لاش پر زیادتی کرنے یا لاش کو ضائع کرنے سے منع کیا ہے۔ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( لَا تَسُبُّوْا الْأَمْوَاتَ، فَإِنَّھُمْ قَدْ أَفْضَوْا اِلٰی مَا قَدَّمُوْا )) [2] ’’مُردوں کو گالی نہ دو، وہ تو اپنے آگے بھیجے گئے اعمال کی طرف جا چکے ہیں۔‘‘ تہذیبِ حاضر اور انسانی حقوق: تہذیبِ جدید اور اس سے بھی صحیح تر عبارت کی رو سے موجودہ مادی تہذیب نے بھی انسانی حقوق کا اعلان کیا ہے، لیکن وہ اصلی غرض کو پورا کرنے سے قاصر اور انتہائی کمزور ہیں، کیوں کہ ان کی بنیاد دنیوی مصالح پر رکھی گئی ہے اور انھیں نافذ کرنے والے لوگ وہ ہیں، جن میں عنصریت کا زہریلا مادہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اسی طرح ان کے پاس کوئی عقیدہ نہیں، جو ان حقوق کو راسخ کرسکے، نہ ان کے پاس ایمان ہے کہ وہ ان کا احیا کر سکیں، اور نہ ان کے پاس وہ احکام ہیں جو ان کا تحفظ و نگرانی کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان حقوق کی دنیا میں اعلیٰ ترقی یافتہ اور مادی تہذیب میں بہت آگے نکلے ہوئے ملکوں میں بھی بے حرمتی کی جاتی ہے اور پھر اس انسان کے حقوق کہاں گئے؟ جس کے قدسِ شریف کی بے حرمتی کی گئی، جس کی زمین غصب کی گئی، جس کے اموال چھین لیے
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۷۸۰) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۱۳۹۳)