کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 548
ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، یہ منہج آپ کے تمام امور اور تصرفات میں جاری و ساری اور آپ کے تمام حالات میں فیصل و حکم ہونا چاہیے، اسی طرح فوزو فلاح آپ کا مقدر ہوگی۔ علمی ذمے داری کی نسبت لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان ربانی علما کی طرف رجوع کیا کریں، جن کے فتاویٰ پر دنیا عمل کرتی ہے، کیونکہ وہ استنباطِ احکام میں ایک خاص حیثیت کے مالک ہیں اور وہ حلال و حرام کے قواعد و ضوابط سے بھی بخوبی واقف ہیں، چنانچہ ایسے ہی علما کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ [الأنبیاء: ۷] ’’اگر تم نہیں جانتے تو اہلِ ذکر (علما) سے پوچھ لو۔‘‘ علماے کرام کی اطاعت ان کی ذات کی وجہ سے مطلوب و مقصود نہیں، بلکہ اس لیے ضروری ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ (کی کتاب) کا علم حاصل ہے او ر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر شدہ (تعلیمات کو) سمجھتے ہیں۔ بعض علماء نے کہا ہے: ’’کوئی شخص علما میں سے بھی صرف اس عالم کا اتباع کرے جو شریعت کی طرف متوجہ ہو، اس کی حجت کو قائم کرنے والا ہو اور اس کے تمام احکام کو پیشِ نظر رکھ کر فیصلہ کرنے والا ہو۔ اگر کوئی شخص کسی بھی جزئی یا فرعی مسئلے میں اس جہتِ شریعت سے ہٹ جائے تو اس مسئلے میں اس کا فیصلہ قابلِ قبول ہوگا اور نہ اس معاملے میں اسے قدوہ و نمونہ بنایا جائے گا۔‘‘ عوام الناس پر واجب ہے کہ وہ اس بات کو خوب ذہن میں رکھیں کہ اصل اعتبار حق کا ہے نہ کہ شخصیات کا، اور اللہ کا تقویٰ و ورع اور خوفِ الٰہی رکھنے والے اہلِ علم کے بغیر حق کا معلوم کرنا بھی ممکن نہیں ہے، وہی اللہ کے راستے کی طرف راہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں، لہٰذا سب پر واجب ہے کہ ان سے رابطہ کیا کریں اور ان کی رائے و فتویٰ پر عمل کیا کریں۔ سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون، وسلام علی المرسلین، والحمد للّٰه رب العالمین۔