کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 541
(3) رجوع اِلی الکتابِ و السنۃ: ان میں سے تیسرا ستون ہر نئے پیش آمدہ مسئلے اور کسی بھی مشکل امر و اختلاف کا حل تلاش کرنے کے لیے کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا ہے، اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کی ہدایات بڑی واضح ہیں۔ چناں چہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا﴾ [النساء: ۵۹] ’’اگر تمھارے کسی معاملے میں اختلاف و تنازع ہو جائے تو اسے اللہ (کتاب اللہ) اور رسول (سنتِ رسول) کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہی بہتر اور اچھے انجام والا ہے۔‘‘ اور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( فَاِنَّہٗ مَن یَعِشْ بَعْدِيْ فَسَیَریٰ اِخْتِلَافًا کَثِیْرًا، فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَآئِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِيْ )) [1] ’’جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت اختلافات دیکھے گا، میرے بعد تم پر میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفا کی سنت کی پیروی لازم ہے۔‘‘ اس امت کے اہلِ حق نے یہی طریقہ اپنایا۔ عقیدہ طحاویہ کے شارح لکھتے ہیں: ’’مسائلِ اصول و فروع جن میں امت نے باہم تنازع و اختلاف کیا ہے، اگر انھیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ لوٹایا جائے گا تو ان میں سے حق کا پہلو واضح نہیں ہوگا، بلکہ تنازع کرنے والے اپنے مسئلے میں بلا دلیل اَڑ جانے والے بن جائیں گے۔‘‘ پھر آگے چل کر وہ لکھتے ہیں: ’’اگر ان پر رحمِ الٰہی نہ ہوا تو وہ اس مذموم اختلاف میں مبتلا ہوجائیں گے جو منع ہے، اس کے نتیجے میں پھر وہ ایک دوسرے کے خلاف سرکشی و بغاوت پر اتر آئیں گے، کوئی
[1] مسند أحمد (۴/ ۱۲۶) سنن أبي داود، برقم (۴۶۰۷) سنن الترمذي، برقم (۲۶۷۶) سنن ابن ماجہ، برقم (۴۶)