کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 540
بعد بھی تفرقہ ڈالا اور باہم اختلاف کیا، انھی لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘ امام طحاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ہم جماعت (اتحاد و اتفاق) کو حق و صواب سمجھتے ہیں اور تفرقے کو کجی اور باعثِ عذاب جانتے ہیں۔‘‘[1] اختلافات اور تفرقہ بازی ان فتنوں میں سے ہیں جن سے ہمیں ڈراتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً﴾ [الأنفال: ۲۵] ’’تم ایسے فتنے (وبال) سے بچو جو خاص کر صرف ان لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے۔‘‘ یہیں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے شریعت کے اغراض و مقاصد کو سمجھا، انھیں اپنے ذہنوں میں بٹھایا اور وحدت کی رسی کو تھامنے اور تفرقہ بازی میں نہ پڑنے کے منہج پر عمل کیا۔ سنن ابی داود میں ہے کہ سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک تاویل کی بنا پر منیٰ میں پوری نماز پڑھی تو سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ’’منیٰ میں ہر چار رکعتوں والی نماز کی دو رکعتیں (قصر) پڑھنا سنت ہے۔‘‘ ان سے کہا گیا اگر یہ بات ہے تو پھر آپ ان (عثمان رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ پوری نماز کیسے پڑھ رہے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: ’’اختلاف و تفرقہ بہت برا ہے، اختلاف بہت براہے، تفرقہ بہت بری چیز ہے، تفرقہ بازی بری بلا ہے۔‘‘[2] سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کے معنیٰ و مفہوم کے اور بھی کتنے ہی آثار و اقوال موجود ہیں۔ اختلافِ مذموم سے وہ اختلاف مراد ہے جو بغاوت و سرکشی اور عدمِ اتباعِ حق کے نتیجے میں ہو، کیونکہ یہی اختلاف امت میں ہوا و ہوس اور خواہشاتِ نفس کی پیروی، خون ریزی، دوسروں کا ناحق مال بٹورنے او ر افرادِ امت کے مابین عدوات و دشمنی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔
[1] العقیدۃ الطحاویۃ (ص: ۲۹) [2] سنن أبي داود، رقم الحدیث (۱۹۶۰) نیز دیکھیں: صحیح البخاري، برقم (۱۰۸۴) صحیح مسلم (۶۹۵)