کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 533
الْمَعْرُوْفِ فِي الدُّنْیَا ھُمْ أَھْلُ الْمَعْرُوْفِ فِيْ الآْخِرَۃِ )) [1] ’’نیکیاں کرنا برے خاتمے، آفات و بلایا اور ہلاکتوں سے بچاتا ہے اور دنیا میں نیکی کرنے والے ہی آخرت میں نیک بدلہ پانے والے ہوں گے۔‘‘ اپنی جاہ و منزلت کو لوگوں کی حاجت برآری کے کام میں لانا اور محتاجوں مسکینوں کی مدد کرنا دنیا و آخرت ہر دو جہاں میں نفع بخش ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (( رُبَّ أَشْعَثَ أَغْبَرَ مَدْفُوْعٍ بِالْأَبْوَابِ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَأَبَرَّہٗ )) [2] ’’کئی ایسے پراگندہ حال و خاک نشین اور در در کی ٹھوکریں کھانے والے لوگ ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم کھا لیں، تو وہ ان کی قسم پوری کردے۔‘‘ جن کا اللہ کے سوا کوئی نہیں: کمزوروں، بیواؤں اور یتیموں کا اللہ کے سوا کون ہے؟ ان لوگوں میں سے کسی ایک کی مقبول دعا آپ کے حالات کو سنوار سکتی ہے۔ یہ دنیا تو مشکلات و مصائب کا گھر ہے، طاقتور کل تک کمزور ہو سکتا ہے، آج کا مال دار کل کا مفلس و نادار بن سکتا ہے، جو آج زندہ ہے کل کو بالآخر اُسے مرنا ہے۔ خوش نصیب وہ ہے، جس نے اپنے منصب و مرتبت اور جاہ و منزلت کو خدمتِ دین اور مسلمانوں کو نفع پہنچانے کے لیے مسخر کر لیا، سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’من مشیٰ بحق أخیہ لیقضیہ فلہ بکل خطوۃ صدقۃ‘‘[3] ’’جو شخص اپنے کسی بھائی کا کوئی حق دلانے کے لیے نکلا، اسے اس کے ہر ہر قدم پر صدقے کا ثواب ملے گا۔‘‘ نیکی تو ابدی خزانہ اور دائمی ذخیرہ ہے۔ لوگوں کے کام کروانے کی سعی کرنا اہلِ مروء ت کی زکات ہے۔ اہلِ ہمت لوگوں کے لیے یہ مصیبت ہے کہ لوگ ضرورت کے وقت ان کے پاس نہ جائیں، سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں صبح اٹھوں اور میرے دروازے پر کوئی حاجتمند نہ ہو تو میں سمجھ لیتاہوں کہ یہ ایک
[1] المستدرک للحاکم (۱/ ۱۲۴) صحیح الجامع، رقم الحدیث (۳۷۹۵) [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۲۶۲۲) [3] تعظیم قدر الصلاۃ للمروزي (۲/ ۸۲۴)