کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 520
’’(اے آدم زاد!) تجھے جو فائدہ پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامتِ اعمال کی) وجہ سے ہے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ﴾ [الشوریٰ: ۳۰] ’’اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے، وہ تمھارے اپنے افعال کا نتیجہ ہوتی ہے اور وہ بہت سے گناہ تو معاف کر دیتا ہے۔‘‘ غرض مسلمان اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہتا ہے اور اپنے اعمال کی جانچ پڑتال بھی کرتا رہتا ہے۔ جب بھی وہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس پر اپنے رب کی طرف تائب ہوجاتا ہے، لیکن کافر کو جب اللہ کی طرف سے کوئی نعمت ملے تو وہ شر میں اور بڑھ جاتا ہے، حق کو جھٹلاتا ہے ، طغیانی و سرکشی اور تکبر پر اتر آتا ہے، اور جب اسے کوئی مصیبت و برائی پہنچتی ہے تو جزع و فزع اور چیخ و پکار کرتا ہے اور اپنے کفر ہی میں لوٹ پوٹ ہوتا رہتا ہے اور صبر و ہمت کا مظاہرہ نہیں کرتا، کیونکہ اس کی جنت تو اس کی دنیا ہی ہے اور اس کا معبود اس کی خواہشاتِ نفس ہوتی ہیں، اس کی مثال اس اونٹ کی ہے جس کا گھٹنا مالک باندھ دیتے ہیں اور اسے کھلا چھوڑ دیتے ہیں اور اسے معلوم نہیں ہوتا کہ مالکوں نے اس کا گھٹنا کیوں باندھا ہے اور اسے کھلا کیوں چھوڑا ہے؟ مصائب و مشکلات: مسلمانو! دورِ حاضر میں مسلمانوں پر مصائب و مشکلات اور عالمِ اسلام پر حوادث و سانحات کی پے در پے یلغار ہوگئی ہے۔ لوگ اس کے متعدد اسباب و وجوہات بیان کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ دشمنانِ دین اور اعداے اسلام کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے، کوئی اس کا سبب مسلمانوں کی اقتصادی کمزوری کو شمار کرتا ہے، کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ سب کچھ مسلمانوں کے صنعتی اور ٹیکنیکل میدان میں بہت پسماندہ رہ جانے کا نتیجہ ہے، غرض اس طرح کی متعدد وجوہات و اسباب ذکر کیے جا رہے ہیں، بہرحال یہ سب مرض کے اعراض و علامات ہیں اصل مرض نہیں۔ مسلمان آج جن المناک حالات اور تکلیف دہ مصائب و مشکلات میں مبتلا ہوچکے ہیں، ان کا اصل سبب لوگوں کا