کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 507
کیوں ہو ؟ حالانکہ تم ( حق کو ) جانتے ہو۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: ﴿ وَ لاَ تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۴۲] ’’ حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ جبکہ تم جانتے ہو۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَ ھُمْ وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْھُمْ لَیَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۱۴۶] ’’وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب دی وہ اس (نبی) کو بالکل اسی طرح پہچانتے جیسے وہ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں لیکن ان میں کچھ لوگ حق کو چھپاتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں۔‘‘ ایک اور جگہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَ لَا تَکْتُمُوْنَہٗ فَنَبَذُوْہٗ وَرَآئَ ظُھُوْرِھِمْ وَ اشْتَرَوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ﴾ [آل عمران: ۱۸۷] ’’ جب اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں سے عہد لیا جنھیں کتاب عنایت کی گئی تھی کہ تم اسے لوگوں کے لیے بیان کرو گے، اسے چھپاؤ گے نہیں، انھوں نے اس عہد کو پسِ پشت ڈال دیا اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت حاصل کی، بہت برا ہے جو یہ حاصل کرتے ہیں۔‘‘ اس ارشادِ الٰہی کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’انھوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کو اپنے لوگوں سے چھپایا اور اﷲنے جن دنیوی و اخروی خیرات و احسانات کا وعدہ فرمایا ہے اس کے عوض انھوں نے دنیوی مال و دولت اور گھٹیا متاع پائی، انکا یہ سودا اور ان کی یہ تجارت بہت ہی بری تجارت ہے۔ اس میں علما کے لیے تنبیہ ہے کہ وہ کہیں انہی کی سی چال نہ چلنے لگیں، انہی کی طرح متاعِ دنیا کے لیے دین و حق کو نہ بیچ کھائیں اور انہی کی طرح دنیا و آخرت کی نعمتوں اور اجر و ثواب سے محروم نہ کر دیے جائیں۔ علماے کرام کو چاہیے کہ جس قدر بھی انھیں علم حاصل ہے، اس کی نشر و اشاعت اور بیانِ حق کے لیے بھر پور