کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 504
درپے ہیں، انھیں اگر کسی چیز کے بارے میں کہا گیا کہ یہ حرام ہے، انھوں نے ایسے ایسے حیلے تراشے کہ اسے حلال کر دیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا خاتمہ کرنے کے لیے حیلے پیدا کرتے ہیں۔‘‘[1] زیاد بن حدید رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کی عمارت کو کیا چیز مسمار کرتی ہے ؟ میں نے کہا: نہیں، انھوں نے فرمایا: اسلام کی عمارت کو، عالم کی لرزش، منافق کا جھگڑا اور گمراہ حکمرانوں کی حکومت زمین بوس کر دیتی ہے۔‘‘[2] لہٰذا اﷲ کے بندو! ایسے شر بردوش لوگوں کے ہمرکاب ہونے اور ایسے گمراہ کن راستوں پر چلنے سے بچو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (( لَا تَرْتَکِبُوْا مَا ارْتَکَبَتِ الْیَھُوْدُ وَتَسْتَحِلُّوْا مَحَارِمَ اللّٰہِ بِأَدْنَی الْحِیَلِ )) [3] ’’تم بھی انہی غلطیوں کا ارتکاب نہ کرنا جن کا ارتکاب یہودیوں نے کیا تھا اور حیلوں بہانوں سے اﷲ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا کو حلال نہ کر لینا۔‘‘ سلف صالحین میں سے بعض نے کہا ہے: ’’جس میں یہ تین چیزیں ہوں گی، یہ خود اسی کے لیے وبال ہوں گی، مکر و فریب، بغاوت و سرکشی اور عہد شکنی، کیونکہ خود اﷲ تعالیٰ کا ارشاد بھی ہے: ﴿وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِأَھْلِہٖ﴾ [الفاطر: ۴۳] ’’اور مکر و فریب کرنے والے کا وبال خود مکر کرنے والے پر ہی پڑتا ہے۔‘‘[4] دعوت و تبلیغ کا فریضہ اور اس کے تارک کا انجام: مسلمانو! شریعتِ اسلامیہ کا دفاع کرنا، حیلے کرنے والوں کے حیلوں کا رد کرنا، افترا پردازوں
[1] الفتاویٰ الکبری لابن تیمیۃ (۱/ ۸۲) إغاثۃ اللھفان (۱/ ۳۵۵) [2] سنن الدارمي (۱/ ۸۲) حلیۃ الأولیاء (۴/ ۱۹۶) [3] إبطال الحیل لابن بطۃ (ص: ۲۴) نیز دیکھیں: غایۃ المرام، رقم الحدیث (۱۱) [4] حلیۃ الأولیاء (۵/ ۱۸۲)