کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 500
کریں، اپنی کوتاہیوں اور عملی تقصیر کا اعتراف کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے اس کی رضا و خوشنودی اور مغفرت و بخشش طلب کرتے رہا کریں۔ غلطی پر اصرار باعثِ ہلاکت ہے: مسلمانو! خطائیں تو بندوں کے گلے کا طوق ہیں اور ان پر اصرار کرنا اور بضد ہو کر ان کا ارتکاب کرتے ہی چلے جانا، باعثِ ہلاکت ہے۔ جو شخص اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری سے اعراض کرتا ہے، وہ اپنی غفلت کے لباس ہی میں اوندھا گرا دیا جاتا ہے اور جس نے اپنے اور اپنے رب کے مابین اچھے تعلقات استوار کر لیے اور اپنی اصلاح کرلی، اللہ اس کے اور مخلوق کے مابین تعلقات کی خود ہی اصلاح کردیتا ہے۔ ابو جعفر السائح بیان کرتے ہیں کہ حبیب ابو محمد ایک تاجر تھے ، وہ لوگوں کو درہم کرائے پر (سودی قرضے میں) دیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ کھیل کود کرتے ہوئے چند بچوں کے پاس سے گزرے تو ان میں سے بعض نے کہا: ’’یہ آگیا ہے سود خوار۔‘‘ تاجر نے سر جھکایا اور نکل گیا اور اپنے رب سے مخاطب ہوکر کہنے لگا: ’’اے میرے اللہ! میرے بھید تو تونے بچوں کے سامنے بھی عیاں کر دیے ہیں، وہ گھر لوٹا، اپنا سارا مال جمع کیا اور اللہ سے درخواست کرتے ہوئے کہنے لگا: اے اللہ! میں تیرا قیدی ہوں، میں اپنا یہ سارا مال تیری راہ میں خرچ کرکے تجھ سے اپنا نفس خریدنا اور اسے آزاد کرانا چاہتا ہوں تو میرے نفس کو آزاد کردے۔ پھر وہ صبح اٹھا اور اپنا سارا مال صدقہ کر دیا اور عبادتِ الٰہی میں مشغول ہوگیا۔[1] ماہِ غفران، ماہِ رمضان کے گزر جانے کے بعد گناہوں سے بچیں، کیونکہ گناہ گار شقاوت و بدبختی میں مبتلا ہوتا ہے اور خطائیں انسان کو ذلیل اور اس کی زبان کو قوت گویائی سے محروم کردیتی ہیں۔ امام ابو سلیمان تیمی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’آدمی پردے سے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، مگر صبح ہونے تک اس پر اس گناہ کی ذلت چھا جاتی ہے۔‘‘[2] اطاعت و نیکی کے بعد گناہ کو اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کے بعد اس سے دوری پیدا کرنے
[1] حلیۃ الأولیاء (۶/ ۱۴۹) [2] جامع العلوم والحکم لابن رجب (ص: ۱۶۳)