کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 50
سامنے سر تسلیم خم کر دو، فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ھُوَ مَوْلٰنَا وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ [التوبۃ: ۵۱] ’’کہہ دے، ہمیں ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچے گا، مگر جو اﷲ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہی ہمارا مالک ہے اور اﷲ ہی پر پس لازم ہے کہ ایمان والے بھروسا کریں۔‘‘ مسلمانو! حالات کبھی یکساں نہیں رہتے، سعادت مند ہے وہ شخص جس نے تقوے کا التزام کیا، اگر وہ مال دار ہے تو یہ تقویٰ اسے زینت دے گا، اگر وہ فقیر ہے تو یہ اسے بے پروا کرے گا، اور اگر وہ کسی آزمایش میں مبتلا ہے تو یہ تقویٰ اس کی ڈھارس بندھائے گا اور دل جمعی کا باعث ہوگا، لہٰذا تم ہر حال میں تقوے کو لازم پکڑو، نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم تنگی میں وسعت اور کشادگی دیکھو گے، حالت بیماری میں حمیت و عافیت دیکھو گے اور فقر و فاقے میں غنی و بے پروائی پاؤ گے۔ جو چیز تمھارے مقدر میں ہے، اسے دور کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اور جو تمھاری قسمت میں نہیں ہے، اسے حاصل کرنے کا کوئی حیلہ نہیں ہے۔ رضا اور توکل مقدور کو گھیرے ہوئے ہیں اور اﷲ تعالیٰ اختیار اور تدبیر میں متفرد ہے، اﷲ جل و علا کا اپنے بندے کے لیے تدبیر کرنا بندے کے خود اپنے لیے تدبیر کرنے سے بہتر ہے، کیونکہ وہ بندے پر خود اس سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ امام داود بن سلیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مومن کے تقوے پر تین چیزوں سے استدلال کیا جاتا ہے: 1 جو چیز اسے حاصل نہیں ہوئی اس پر حسن توکل۔ 2جو چیز اسے حاصل ہوگئی ہے، اس پر حسن رضا۔ 3اور جو چیز اس سے کھو گئی ہے، اس پر حسن صبر۔‘‘[1] جو شخص تعالیٰ کے اختیار پر راضی رہا، اسے اس حال میں تقدیر پہنچے گی کہ وہ محمود، مشکور اور ملطوف بہ ہوگا، ورنہ اس پر تقدیر کا قلم یوں چلے گا کہ وہ مذموم و غیر ملطوف بہ ہوگا، اس کے باوجود جو اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے، اس سے بچ نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔ حکما میں سے کسی سے پوچھا گیا: غنٰی کیا ہے؟ اس نے جواب دیا:
[1] الزھد الکبیر للبیھقي (۲/ ۳۵۱)