کتاب: خطبات حرمین(جلد2) - صفحہ 498
عرض کی: ’’مجھے اسلام کے احکام کے سلسلے میں ایسی بات کہیں کہ آپ کے بعد مجھے کسی کو پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( قُلْ آمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ )) [1] ’’کہو کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور پھر اس پر ثابت قدم رہو۔‘‘ ہر وقت اور ہر لمحہ اپنے مولا کریم کی اطاعت و فرمانبرداری پر قائم رہیں اور موت آجانے تک مومن کے لیے عمل کا کوئی خالی وقت نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ﴾ [الحجر: ۹۹] ’’اپنے رب کی اس وقت تک عبادت کرتے رہو جب تک کہ موت نہ آجائے۔‘‘ صالحین کا منہج: صالحین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اعمالِ صالحہ کی عدمِ قبولیت سے ڈرتے رہتے ہیں۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے کہ اگر وہ زمین کی پہنائیوں کے برابر بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردیں، پھر بھی وہ اپنے دل میں گناہ سے پر امن نہیں ہوتے۔‘‘[2] لہٰذا عمل کی کثرت پر اعتماد کرکے نہ بیٹھ جائیں، آپ کو کیا معلوم کہ وہ قبول بھی ہوگا یا نہیں؟ اور گناہوں سے کبھی امن محسوس نہ کریں، کیا معلوم کہ ان کا کفارہ ہوا بھی یا نہیں؟ اپنے عمل پر خوش ہو جانے والا بالآخر ذلت و رسوائی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ کتنے ہی عابد لوگ ہیں جنھیں ان کے اعمال پر فخر ہی نے برباد کر دیا ہے۔ ہلاکت آفریں چیزوں میں سے بخل، خواہشاتِ نفس کی پیروی اور خود پسندی بھی ہیں۔ جو شخص اپنے اعمال کو ان آفتوں سے صحیح نگرانی کرکے نہیں بچاتا، وہ نقصان اٹھانے والا ہوجاتا ہے۔ ظاہری اعمال اگر ریا کاری سے خالی نہ ہوئے تو وہ عند اللہ فائدہ مند ثابت نہ ہوں گے۔ خود پسندی کے نتیجے ہی میں خود فریبی، تدبیرِ الٰہی سے امن، عمل میں کوتاہی اور گناہوں کو بھول جانا اور ان کے بارے میں بے پروائی برتنا جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
[1] صحیح مسلم، رقم الحدیث (۳۸) [2] جامع العلوم والحکم لابن رجب (ص: ۱۷۴)